خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے تعلیم ضروری ہے، وفاقی شرعی عدالت
خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے تعلیم ضروری ہے، وفاقی شرعی عدالت
وفاقی شرعی عدالت نے جمعرات کے روز فیصلہ سنایا کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کے تحت لڑکی کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد 16 سال رکھنے سے لڑکیاں کم از کم بنیادی تعلیم حاصل کر سکیں گی۔
یہ تبصرہ ایف ایس سی کی جانب سے ایک پٹیشن کو مسترد کرنے کے بعد سامنے آیا ہے اور اس میں واضح طور پر کہا گیا کہ ایک اسلامی ریاست لڑکیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد مقرر کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔
سی ایم آر اے کے سیکشن 4 میں کہا گیا ہے کہ نابالغ لڑکی سے شادی کرنے پر 6 ماہ تک کی قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا، جبکہ سیکشن 5 اور 6 کسی بچے کے نکاح کو مکمل کرنے اور بچپن کی شادی کی اجازت دینے یا اس کی حوصلہ افزائی کے لیے سزاؤں کی وضاحت کرتے ہیں۔
مزید پڑھئے: تعلیم اور صحت کے شعبے میں 70 ہزار آسامیاں پُر کی جائیں گی، وزیراعلیٰ پنجاب
حکام کا کہنا ہے کہ تعلیم ہر انسان کی شخصیت کی نشوونما میں سب سے اہم جز ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صحت مند شادی کے لیے نہ صرف جسمانی صحت اور معاشی استحکام اہم اجزاء ہیں بلکہ ذہنی صحت اور فکری نشوونما بھی ضروری ہے، یہ دونوں چیزیں تعلیم کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ تعلیم خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ ایک فرد کی ترقی کی کلید ہے اور اس کے نتیجے میں، قوم کی آنے والی نسل کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔