اعلیٰ تعلیم کے باعث سعودی عرب میں خواتین کو بااختیار بنانے کی راہ ہموار
اعلیٰ تعلیم کے باعث سعودی عرب میں خواتین کو بااختیار بنانے کی راہ ہموار
سعودی تعلیمی اداروں میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل کرنے والی اور مملکت بھر کے تعلیمی اداروں میں لیکچرارز اور پروفیسرز کے طور پر کام کرنے والی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اب سعودی عرب میں مردانہ تسلط کے دن پورے ہو گئے ہیں اور تعلیم جیسے اہم شعبے میں انتظامی عہدوں پر پڑھی لکھی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جدید سعودی معیشت کے تمام شعبوں میں خواتین کو بااختیار بنانے کا عمل تعلیم اور ملازمت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنے کے ذریعے ممکن بنایا گیا ہے۔
پچھلی چند دہائیوں کے دوران، تعلیمی اصلاحات مختلف مراحل سے گزری ہیں، جن میں حکومتی وظائف کی تشکیل اور وزارت تعلیم کے اقدامات شامل ہیں تاکہ خواتین اسٹوڈنتس کو مختلف قسم کے مطلوبہ اور خصوصی مضامین میں ڈگریاں حاصل کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔
اگرچہ مملکت کی تاریخ میں پہلی اسکالرشپ 1935 میں قائم کی گئی تھی، جب شاہ عبدالعزیز نے تین سعودی طلباء کو برطانیہ بھیجا تھا، تھورایا عبید، جنہوں نے 1966 میں اوکلینڈ، کیلیفورنیا کے ملز کالج سے گریجویشن کیا، وہ پہلی سعودی خاتون تھیں جنہوں نے سرکاری اسکالرشپ حاصل کی۔
تھورایا عبید کو دیگر اہم کارناموں کے علاوہ عالمی تہذیب و ثقافت کے 100 سرفہرست مسلم معماروں میں سے ایک قرار دیا گیا۔
بہت سے دیگر طالب علم بھ جلد ہی ان کے نقش قدم پر چل پڑے اور 1980 میں نوجوان سعودی باشندوں کو امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کی سہولت دینے والے وظائف کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔ اس دوران اسکالرشپ حاصل کرنے والے 11,000 طلباء میں سے ایک تہائی تعداد خواتین کی تھی۔
سعودی عرب میں خواتین کو تعلیم کے شعبے میں با اختیار بنانے کے اس سفر میں زیادہ تعداد میں خواتین گریجویٹس کے ساتھ، خواتین کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے اور مرد ساتھیوں کے مقابلے میں بہتر آمدنی حاصل کرنے کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔