ایچ ای سی کی تعلیمی پالیسی کا از سرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت

ایچ ای سی کی تعلیمی پالیسی کا از سرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت

ایچ ای سی کی تعلیمی پالیسی کا از سرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت

 

پاکستان کی سرکاری و نجی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز گزشتہ ہفتے بھوربن میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے زیر اہتمام اور برٹش کونسل کی میزبانی میں ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کی جانب سے متعارف کرائی گئی انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پالیسیوں کا جائزہ لینے کے لیے بھوربن میں جمع ہوئے۔

اس بڑی تقریب میں شرکت کرنے والے 180 میں سے 178 وی سیز نے ان پالیسیوں کو یکسر مسترد کر دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ ان پالیسیوں نے صرف ڈھائی سال میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور گزشتہ 15 سالوں میں ایچ ای سی کے کیے گئے 15 سال کے شاندار کام کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔

ڈاکٹر بنوری کے حیران کن اقدامات میں سے ایک پاکستان کے لیے تعلیم کے تین واضح ادوار، بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے لیے بولوگنا پروٹوکولز کی ضروریات کو ترک کرنا تھا، جس پر زیادہ تر ممالک اعلیٰ تعلیمی قابلیت کی بنیادی اساس کے طور پر متفق ہیں۔

مزید پڑھئے: شفقت محمود کا مشترکہ پروگراموں پر عالمی بینک کے وفد سے خطاب

وائس چانسلرز نے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے فقدان اور وائس چانسلرز کی کمیٹی کے سامنے اس مسئلے کو اٹھائے بغیر اور اس سے مشورہ طلب کیے بغیر اہم تبدیلیوں کو متعارف کرانے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

ان پالیسیوں کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک اور بڑا دھچکا ایچ ای سی کا نئے فیکلٹی ممبران کے لیے بنیادی طور پر ریسرچ فنڈز کو ختم کرنے کا فیصلہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام پاکستان کے نوجوان فیکلٹی ممبران کے لیے ایک تباہ کن دھچکا تھا۔ خوش قسمتی سے، ایچ ای سی اب بہتری کی طرف گامزن ہے، اور پرانے چیئرمین کی برطرفی کے بعد سے کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے اس سلسلے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے یونیورسٹی آپریشن کے بجٹ میں 15 ارب روپے کے اضافے کی منظوری دی ہے۔

 

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو