چین میں زیادہ اسکول ورک اور ہوم ورک کے خلاف قانون پاس
چین میں زیادہ اسکول ورک اور ہوم ورک کے خلاف قانون پاس
چین کے سرکاری میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ حکومت نے ایک نیا تعلیمی ضابطہ منظور کیا ہے جس کا مقصد اسکول میں پڑھائی کے دوران زیادہ کام اور اسکول کے بعد کی ٹیوشننگ کے ذہنی دباؤ کو کم کرنا ہے۔
اس نئے قانون کے تحت والدین پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے بچے مناسب آرام اور ورزش کریں اور وہ زیادہ وقت آن لائن نہ گزاریں۔
رواں سال کے ماہِ اگست میں چین میں چھ اور سات سال کے بچوں کے تحریری امتحانات کو ختم کر دیا گیا۔ حکام نے خبردار کیا کہ اس وقت طلباء کی جسمانی اور ذہنی صحت خطرے میں پڑ رہی تھی جس کے باعث یہ فیصلہ کیا گیا۔
مزید پڑھئے: پی ایم سی نے 2022 کے لیے داخلے کا اعلان کر دیا
حکومت نے بچوں میں انٹرنیٹ اور پاپولر کلچر کی عادات کو روکنے کے لیے پچھلے سال کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔
ملک کے اہم قانون ساز ادارے نیشنل پیپلز کانگریس کی قائمہ کمیٹی نے ہفتہ کے روز اس تازہ ترین تجویز کی منظوری دی۔
اگرچہ قانون کی مکمل تشریح ابھی جاری نہیں کی گئی تاہم میڈیا رپورٹس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ والدین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اخلاق، فکری نشوونما اور سماجی آداب کو فروغ دیں۔
اس قانون پر عملدرآمد مقامی حکومت کی ذمہ داری ہوگی جس میں غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے رقم بھی شامل ہوگی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ویبو پر کچھ صارفین نے بہترین والدین کی حوصلہ افزائی کرنے کے اصول کی تعریف کی جبکہ دوسروں نے سوال کیا کہ کیا مقامی حکومتیں یا والدین خود اس کام کو انجام دیں گے۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق ایک صارف نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ وہ صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک کام کرتے ہیں اور یہ عمل ہفتے میں چھ دن جاری رہتا ہے اور جب وہ رات کو گھر جاتے ہیں تو وہ کیسے اپنے بچوں کی پڑھائی میں ان کی مدد کرسکتے ہیں؟
مزید پڑھئے: اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے سیمسٹر فیس 50 فیصد تک کم کر دی
ان کا کہنا تھا کہ آپ ملازمین کا استحصال نہیں کر سکتے اور ان سے ایک یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ ایک ہی وقت میں کام بھی کریں اور بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی دھیان دیں۔
دوسری جانب بیجنگ نے جولائی میں بنیادی مضامین کی تعلیم سے منافع کمانے کے لیے ملک میں کام کرنے والی آن لائن ٹیوشننگ کمپنیوں سے یہ اختیار واپس لے لیا تھا۔
نئے قوانین نے اس صنعت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی محدود کر دیا اور نجی ٹیوشننگ سیکٹر کو متاثر کیا ہے جس کی مالیت ان تبدیلیوں سے قبل تقریباً 120 بلین ڈالر تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت ملک میں بچوں کی پرورش کے مالی بوجھ کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری جانب تعلیمی عدم مساوات بھی ایک مسئلہ ہے، جبکہ زیادہ متمول والدین ہزاروں ڈالر خرچ کرکے اپنے بچوں کو مہنگے اسکولوں میں داخل کروانے پر آمادہ ہیں۔
(اس خبر کی تشکیل میں بی بی سی سے مدد لی گئی ہے)