وائرس ختم ہونے کے بعد بھی 500 کے قریب اسکول دوبارہ نہیں کھلیں گے، اے ایس پی سی اے
وائرس ختم ہونے کے بعد بھی 500 کے قریب اسکول دوبارہ نہیں کھلیں گے، اے ایس پی سی اے
حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وائرس کے خاتمے کے بعد بھی سندھ بھر میں لگ بھگ 500 کم فیس والے پرائیوٹ اسکول دوبارہ نہیں کھل سکیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ کم فیس والے ان پرائیوٹ اسکولوں میں سے 300 اسکول کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔
آل پرائیویٹ اسکولز مینیجمنٹ ایسوسی ایشن (اے پی ایس ایم اے) اور آل سندھ پرائیویٹ اسکولز و کالجز ایسوسی ایشن (اے ایس پی ایس سی اے) کی رپورٹ کے مطابق ان اسکولوں میں سے بیشتر پسماندہ علاقوں میں قائم ہیں۔ ان اسکولوں کو چلانے کے لیے سیکڑوں دیگر مقامی اسکولوں کے مالکان اور انتظامیہ نے مالی معاونت کرنے والی تنظیموں سے رابطہ کیا ہے۔ پھر بھی ان کا کہنا ہے کہ ان کی حمایت کرنے اور ہزاروں بچوں کے مستقبل کو بچانے کے لیے کہیں کوئی گنجائش نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: کالج کے اساتذہ کے لیے 3 ہزار بھرتیوں کا شیڈول جاری
ان دونوں ایسوسی ایشنز نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ اگر حکام کی جانب سے کوئی بامعنی قدم نہ اٹھایا گیا تو مستقل طور پر اسکول بند ہونے سے اسکول سے باہر رہنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔
اے ایس پی سی اے کے چیئرمین حیدر علی نے کہا کہ ہم صرف ایک تنظیم کی حیثیت سے قانونی مدد اور پیشہ ورانہ مشورے پیش کرتے ہیں اور ممبر اسکولوں کو ان کے تدریسی عمل اور سیکھنے کی سرگرمیوں کو مستحکم کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے گروپ نے ایسے اسکولوں سے ڈیٹا اکٹھا کیا جن کے مالکان کورونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد تعلیمی سرگرمیاں معطل کرنے کے بعد اپنے اسکولوں کو چلانے سے قاصر تھے۔ تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ ان کی تنظیم کی جانب سے ابھی تک بند اداروں کے کوائف کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے وسیع کام کو مکمل کرنے کے لیے خاصے وقت کی ضرورت ہے۔
اے پی ایس ایم اے سندھ کے چیئرمین سید طارق شاہ نے کہا کہ کم فیس والے نجی اسکولوں کو اس وجہ سے بند کرنا پڑتا ہے کیونکہ انہیں جمع شدہ ادائیگیوں میں سے کرایہ، ملازمین کی اجرت، بجلی کے بل اور ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم طارق شاہ نے نشاندہی کی کہ ان اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین گذشتہ نو یا اس سے زائد ماہ سے فیسیں دینے سے انکار کر رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب کسی بھی حکام نے ان معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔
مزید پڑھیں: ہزارہ یونیورسٹی کا طلباء اور عملے کے لیے نئے ڈریس کوڈ کا اعلان
اسکولوں کے مالکان بھی باقاعدگی سے ڈراپ آؤٹ رجسٹر کر رہے ہیں، جس کے بعد اسکول چھوڑنے والے طلباء کی تعداد میں 20 فیصد سے 25 فیصد کے درمیان اضافہ بتایا گیا ہے۔
انہوں نے انتباہ کیا کہ اس طرح کی مایوس کن صورتحال سے پاکستان میں اسکول جانے کی عمر والے ایسے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا جو اسکولوں میں داخل نہیں ہیں۔
اس کے بعد انہوں نے یونیسیف کے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان ان ممالک میں دوسرا نمبر رکھتا ہے جہاں بڑی تعداد میں بچے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے ہیں۔