برسوں پہلے خطرناک قرار دیئے گئے اسکول میں طلباء کلاسز لینے پر مجبور
برسوں پہلے خطرناک قرار دیئے گئے اسکول میں طلباء کلاسز لینے پر مجبور
ٹیکسلا کی تحصیل پسوال کے ایک گاؤں میں واقع تباہ حال اسکول کی عمارت میں طلباء کلاسز لینے اور کورسز میں شرکت کرنے پر مجبور ہیں۔
اس عمارت کو 1964 میں تعمیر کیا گیا تھا اور گزشتہ 58 سال سے محکمہ تعلیم پنجاب نے اس کی مرمت نہیں کرائی۔ تباہ شدہ دیواروں اور ٹپکتی ہوئی چھت کے ساتھ اس اسکول کی عمارت کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتی ہے اور خدشہ ہے کہ یہ عمارت کسی وقت بھی گر سکتی ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق اس اسکول نے ان گزرے برسوں کے دوران کسی تعلیمی محاذ پر کبھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا، اسکول کے کسی ایک بھی طالب علم کو معاشرے کے اچھے اداروں میں کسی اعلیٰ عہدے پر جگہ نہیں ملی۔
محکمہ تعلیم کی نظروں سے اوجھل اس اسکول کی عمارت، حکام کی روایتی ہٹ دھرمی اور غفلت کی داستان سنا رہی ہے۔
ٹیکسلا کے حلقہ این اے 63 میں واقع یہ اسکول چار کلاس رومز، ایک برآمدہ اور دو واش رومز پر مشتمل ہے۔ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ تر طالب علم، لڑکیاں اور لڑکے پسماندہ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے پاس کسی بہتر اسکول میں پڑھنے کے لیے مالی وسائل کی کمی ہے۔ علاہق مکین شکوہ کرتے ہیں کہ علاقے کے دو اہم سیاسی حریف یعنی چوہدری نثار علی خان اور غلام سرور خان اس حلقے سے وفاقی وزیر کا قلمدان تو رکھتے ہیں لیکن انہوں نے بڑے پیمانے پر تعلیم اور اسکولوں کی عمارتوں کی بہتری کے لیے شاید ہی کچھ کیا ہو۔
ایک مقامی شخص اسحاق عباسی نے کہا کہ ہم وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم عمران خان سے درخواست کرتے ہیں کہ اس اسکول کی عمارت کو اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کرنے کے فوری احکامات جاری کریں۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم کی کمزوری اور غفلت کے پیش نظر خدشہ ہے کہ مقامی سیاستدان اسکول کی عمارت اور زمین کسی ہاؤسنگ سوسائٹی کو فروخت کردیں گے۔