طلباء میں چیٹ جی پی ٹی کا بڑھتا ہوا استعمال ایچ ای سی کے لیے دردسربن گیا
طلباء میں چیٹ جی پی ٹی کا بڑھتا ہوا استعمال ایچ ای سی کے لیے دردسربن گیا
انسانی طرز پر رد عمل دینے والے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے نئے پروگرام ”جی پی ٹی ماڈل“ نے سائنسی و غیرسائنسی شعبوں میں تہلکہ مچادیا ہے اور اس کے بعض منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے ہائرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے حکام نے سرجوڑلیے ہیں۔
اس ماڈل میں سوالات کے جوابات دینے،موضوعات پر تبصرہ کرنے اور آرٹیکل، خلاصوں اور ترجمے میں مہارت رکھنے سمیت ماہرانہ طرزکے وہ عوامل بھی شامل ہیں جو معروف سرچ انجن گوگل پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اسی بنیاد پراس ماڈل نے ایک جانب آئی ٹی سمیت دیگرپیشوں سے وابستہ ماہرین کو حیرت میں ڈال رکھا ہے جبکہ دوسری جانب طلباء اور بالخصوص جامعات کی سطح پر جی پی ٹی ماڈل متعارف ہونے سے طلباء و طالبات کی چاندی ہوگئی ہے۔
جامعات کی سطح پر طلباء و طالبات میں اس کا استعمال اس قدر عام ہوگیا ہے کہ مختلف ضابطوں اورشعبوں میں پڑھنے والے طلباء وطالبات اس ماڈل سے تھیسز رائٹنگ کروا رہے ہیں اور اپنی اسائنمنٹس بنوارہے ہیں۔
اطلاع یہ ہے کہ تھیسزرائٹنگ میں سرقہ نویسی کی شناخت کے لیے ایچ ای سی کے پاس دستیاب سوفٹ ویئر بھی جی پی ٹی ماڈل سے لکھوائی گئی تحریر کی شناخت نہیں کر سکتا، جبکہ اس ماڈل کا کسی بھی سوال کے جواب میں ردعمل اس قدر تیز ہے کہ تھیسز رائیٹنگ یا کسی بھی قسم کے اسائنمنٹس میں گوگل کے استعمال کی ضرورت ہی پیش نہیں آرہی۔
ایکسپریس نیوز“ نے اس سلسلے میں چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹرمختاراحمد سے بات کی توان کا کہنا تھا ایچ ای سی کے علم میں یہ معاملہ آیا ہے اورآئی ٹی کے شعبے سے کہا گیا ہے کہ اس کے تدارک کے لیے حکمت عملی پیش کی جائے کہ کس طرح آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی اس نئی جہت کے غلط استعمال کو روکا جائے۔
ڈاکٹرمختاراحمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرہم فوری طورپر اس کا کوئی حل نہیں ڈھونڈ سکے تو پی ٹی اے کوسفارش کرسکتے ہیں کہ ملک میں اس کا استعمال روکا جائے یا کسی حد تک محدود کیاجائے تاہم یہ آخری آپشن ہوگا۔
قابل ذکر امریہ ہے کہ جی پی ٹی ماڈل ایک چیٹ ماڈل ہے جوکسی بھی انسان سے باقاعدہ بات چیت کے ذریعے دنیا کے کسی بھی موضوع پر اپنی رائے دینے،اپنے الفاظ میں معلومات فراہم کرنے اوراس معلومات کے حوالے سے کیے گئے سوالات کو مزید بہتر انداز اور تفصیلات کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے سبب کالجوں اورجامعات کی سطح پر نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ میں بھی اس کا استعمال بڑھ گیا ہے