تعلیمی بجٹ میں کٹوتی، سرکاری یونیورسٹیاں شدید پریشانی کا شکار
تعلیمی بجٹ میں کٹوتی، سرکاری یونیورسٹیاں شدید پریشانی کا شکار
ہائر ایجوکیشن کمیشن کی گورننگ باڈی نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے لیے بجٹ میں بے مثال اور بھاری کمی کی شدید مذمت کی ہے، اور اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ اس سے گزشتہ دو دہائیوں کے تمام قابلِ ذکر اقدامات صفر پر چلے جائیں گے۔
جمعہ کے روز ہونے والی ایک آن لائن میٹنگ میں، کمیشن نے متفقہ طور پر حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بجٹ میں کٹوتی کا اپنا فیصلہ واپس لے اور آئندہ بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے لیے مناسب فنڈز مختص کرے، اجلاس نے خبردار کیا کہ اس کٹوتی کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، جس میں اداروں کی بندش، یونیورسٹی کے پروگرام، فیکلٹی ممبران کی برطرفی، تحقیقی منصوبوں کا خاتمہ اور بین الاقوامی اعلیٰ تعلیم کے معاہدوں کو روکنے سمیت تعلیم کا خاتمہ شامل ہے۔
حکومت کی جانب سے گزشتہ مالی سال کے لیے مختص 66 اعشاریہ پچیس بلین روپے کے تعلیمی بجٹ کو کم کر کے 30 بلین روپے کرنے پر ایچ ای سی اور سرکاری یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز نے شدید احتجاج کیا ہے اور اسے تعلیم دشمن اقدام قرار دیا ہے۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ماہرین تعلیم یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جی ڈی پی کا کم از کم ایک فیصد اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص کیا جائے، لیکن جی ڈی پی کا صرف 0.04 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرنا پہلے سے ہی مشکلات کا شکار اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے لیے تباہ کن ہو گا، جہاں یونیورسٹیاں بنیادی تعلیم کے لیے بھی جدوجہد کر رہی ہیں ایسے میں اساتذہ اور عملے کی تنخواہ، پنشن اور سروسز جیسے اخراجات کے لیے ادائیگی شدید مشکل ہوجائے گی۔
کمیشن کے ارکان نے کہا کہ وہ ملک کے موجودہ مالیاتی بحران سے آگاہ ہیں لیکن ماضی میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو نظر انداز کیا گیا اور اسے بجٹ کا کم از کم مطلوبہ حصہ بھی کبھی نہیں ملا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نئے اداروں کو اس توسیع کے مالی اثرات کی پروا کیے بغیر انتہائی تیز رفتاری سے چارٹر کیا گیا ہے۔ اگرچہ ملک میں اعلیٰ تعلیم تک رسائی اور معیار کو بڑھانا تمام حکومتوں کی اولین ترجیح ہے، لیکن طویل مدتی بنیادوں پر مناسب مالی مدد کے بغیر اسے حاصل کرنا ناممکن ہے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ سرکاری یونیورسٹیوں کے پاس طلباء کی فیسوں میں خاطر خواہ اضافہ کرنے اور طلباء کی تعداد کو استعداد سے زیادہ بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا، جس سے یہ شعبہ تباہ ہو جائے گا اور سیکھنے کا عمل اور گریجویٹس کا معیار بری طرح متاثر ہو گا۔
جمعرات کو ہونے والے وائس چانسلرز کے اجلاس میں اراکین کو بھی اپ ڈیٹ کیا گیا، اجلاس نے حکومت کو ایک سخت پیغام بھیجا کہ بجٹ میں کٹوتی اعلیٰ تعلیم کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے اور یونیورسٹیوں کو بند کرنے کے مترادف ہوگی۔
جمعرات کے روز پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے 120 سے زائد سربراہان نے یونیورسٹیوں کے بجٹ میں ہونے والی اس بھاری کٹوتی کی مذمت میں متحد ہو کر وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور وزیر تعلیم پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کو فوری طور پر دیکھیں اور بجٹ کو بڑھا کر 104 بلین روپے تک لے جائیں جس کی فی الواقعہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو ضرورت ہے۔