گھوسٹ اسکولز: سندھ میں خستہ حال عمارتیں ایک المناک داستان بیان کرتی ہیں
گھوسٹ اسکولز: سندھ میں خستہ حال عمارتیں ایک المناک داستان بیان کرتی ہیں
سندھ میں تعلیم کا مستقبل انتہائی پریشان کن حالت میں نظر آتا ہے کیونکہ خستہ حال عمارتیں، گھوسٹ اسکولز اور بند سرکاری ادارے متعلقہ حکام کی لاپرواہی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ صوبائی بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے قابل ذکر رقم مختص کرنے کے باوجود صورتحال جوں کی توں ہے۔
ضلع ٹھٹھہ کی تحصیل گھوڑا باڑی میں طلبا کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ان کے اسکولوں کی بندش کا خطرہ ہے۔ اس تحصیل میں زیادہ تر سرکاری سطح پر چلنے والے اسکول انتہائی خستہ حالت میں ہیں، جس میں چار دیواری، چھتوں اور واش رومز اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔
تعلیمی اداروں میں موجود غیر صحت بخش حالات اس مسئلے کو مزید بڑھانے کا باعث ہیں۔ اس کے علاوہ تحصیل کے اسکولوں میں قابل اور اہل تدریسی عملے کی بھی کمی ہے۔ اس معاملے کو لے کر مقامی افراد نے اعلیٰ حکام سے کئی بار شکایت بھی کی ہے مگر اس کا کوئی حوصلہ افزا نتیجہ نہیں نکل سکا۔ مقامی افراد کو یقین ہے کہ حکام نے اس مسئلے پر آنکھیں بند کررکھی ہیں۔
گھارو ٹاؤن کے رہائشی ایک مقامی کارکن وارث غفور نے کہا کہ 1970 کی دہائی کے آخر میں یہاں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک مڈل اسکول واقع تھا مگر اب وہ شادیوں اور دیگر نجی پروگراموں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
گھارو ٹاؤن میں سندھ سرکار کے زیر انتظام پرائمری اسکولوں اور کالجوں میں بھی شدید پریشانیوں کا سامنا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ایک کارکن جان محمد رانو نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ بعض اوقات اسکولوں کی عمارت تو ہوتی ہے لیکن اس میں مناسب تدریسی عملہ اور مطلوبہ سہولیات کا فقدان ہوتا ہے جو بالآخر اسکول کو غیر فعال کر دیتا ہے۔
مزید پڑھیں: فواد چودھری نے پاکستان کی سب سے بڑی اسکالرشپ کا اعلان کردیا
دیگر معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ جہاں تدریسی عملہ موجود ہے وہاں بچے کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کرتے ہیں کیونکہ اسکول کی عمارت تاحال زیر تعمیر ہے۔ اسی طرح 1956 میں اس علاقے میں لڑکوں کے لیے ایک سرکاری پرائمری اسکول تعمیر کیا گیا تھا لیکن یہ آج تک بغیر چھت کے ہی چل رہا ہے۔
جان محمد رانو نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس اسکول میں تقریباً 185طلباء اور دو اساتذہ موجود ہیں اور یہ اسکول تاحال بغیر چھت کے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقامی افراد نے حال ہی میں وزیر تعلیم کو صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے خط لکھا ہے۔
اُدھر ضلع کے لوگوں کو شکایت ہے کہ پیپلز پارٹی جو سندھ میں برسوں سے حکومت کرتی آرہی ہے، اس حلقے میں انتخابات لڑنے کے لیے علاقے کے مقامی لوگوں کے بجائے بیرونی افراد کو نامزد کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے سوتیلے بھائی اویس مظفر ٹپی نے یہاں سے سن 2013 میں صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 78 پر کامیابی حاصل کی۔ جبکہ 2018 میں اس حلقے سے علی حسن زرداری نے سیٹ حاصل کی۔
قصبے میں رہنے والے ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم احمد علی خاصخیلی نے کہا کہ ہماری کوششوں کے باوجود ان دونوں رہنمائوں نے ہمارے مسائل سننے کے لیے ہم سے ملاقات نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے قصبے میں ڈگری کالج کی تعمیر کی منظوری تو دے دی ہے لیکن وہاں پڑھانے کے لیے کوئی لیکچرار نہیں ہے۔
تعلیمی کارکن پروفیسر لیاقت میرانی کے مطابق رواں مالی سال میں صوبائی تعلیمی بجٹ کو مجموعی طور پر 212 ارب روپے سے بڑھا کر 244.5 ارب روپے کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی محکمہ تعلیم کی ترجیحات میں تعلیم کا فروغ شامل ہی نہیں ہے جو اس علاقے میں تعلیم کی بہتری میں رکاوٹ ہے۔
اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹھٹھہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر محمد رحیم سومرو نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے ذریعے شروع کی گئی تحقیقات کی وجہ سے ترقیاتی کام ڈسٹرب ہوگئے ہیں۔ نیب لگ بھگ 100 اسکولوں سے متعلق کیسز کی تحقیقات کر رہا ہے جس سے ٹھیکیداروں اور سرکاری اہلکاروں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
مزید پڑھیں: پنجاب کے پرائمری اسکولوں کو اعلی سطح پر اپ گریڈ کیا جائے گا، مراد راس
نتیجہ کے طور پر انہوں نے ترقیاتی کام روک دیے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ انکوائریوں میں فیصلہ آنے کے بعد کام جلد شروع کردیا جائے گا۔ جب اسکولوں میں اساتذہ کی کمی سے متعلق اطلاعات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک جائزہ لیا ہے اور جلد ہی یہاں مزید اساتذہ کی تقرری کریں گے۔
ایکسپریس ٹربیون نے کئی بار سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی اور علی حسن زرداری سے رجوع کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے کو دستیاب نہیں تھے۔