جرمن فنڈز کے استعمال میں ناکامی کے بعد وزارت تعلیم تنقید کی زد میں

جرمن فنڈز کے استعمال میں ناکامی کے بعد وزارت تعلیم تنقید کی زد میں

جرمن فنڈز کے استعمال میں ناکامی کے بعد وزارت تعلیم تنقید کی زد میں

 صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 1993-94 میں جرمنی سے ملنے والی 13.707 ملین روپے کی گرانٹ کو استعمال نہ کرنے میں مجرمانہ غفلت، نا اہلی اور غیر ذمہ داری پر وزارت تعلیم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

 

انہوں نے کہا تھا کہ 30 سال قبل کاغذ کی خریداری کے لیے دیا گیا عطیہ جس سے کم لاگت نصابی کتب کی چھپائی ممکن ہو سکتی تھی اسے ضائع کردیا گیا، تاہم، حکومت اپنی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی گرانٹس اور قرضوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔

صدر مملکت نے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کی موجودہ وزارت کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کرے، فنڈز ضائع کرنے کے ذمے داران کو جوابدہ ٹھہرایا جائے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

انہوں نے وزارت تعلیم پر زور دیا کہ وہ ریٹائرڈ ملازمین پر اس طرح کی تحقیقات کے لیے دباؤ نہ ڈالے، انہوں نے مکمل رپورٹ 45 دنوں کے اندر ایف ٹی او کو بھیجنے کی ہدایت کی۔

صدر مملکت نے یہ بات آج سینٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز کی جانب سے وفاقی ٹیکس محتسب کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل پر جاری کردہ اپنے فیصلے میں تحریر کی۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جرمن فنڈز چھ سال سے غیر منافع بخش اکاؤنٹ میں تھے اور کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اگر یہ کسی افسر کے فنڈز ہوتے تو وہ فوراً سے پیشتر اسے منافع بخش اسکیم میں لگاتے۔

انہوں نے رجسٹر کیا کہ اس رقم کے غیر فعال رہنے کی وجہ سے ہونے والا نقصان مجموعی طور پر 17,490,730 روپے ہے، جو کہ 13.707 ملین روپے کی اصل رقم سے کہیں زیادہ ہے۔

صدر عارف علوی کے مطابق، رقم 23 جولائی 1999 سے 23 جولائی 2014 تک خصوصی بچت سرٹیفکیٹس اسکیم میں رکھی گئی تھی۔  

انہوں نے مزید کہا کہ 23 ​​مارچ 2014 کو سرمایہ کاری کا خودکار رول اوور بند ہونے کے بعد، تعلیم کے شعبے میں ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جو اس بھاری رقم کی پروا کرتا۔ وزارت نے ساری رقم کو بیکار رہنے دیا، جس سے کوئی منافع نہیں ہوا۔

 

انہوں نے وزارت تعلیم کے اصل رقم کا استعمال نہ کرنے کے عمل کو "شرمناک" قرار دیا کیونکہ سستی اسکول کی نصابی کتابیں بنانے کے لیے کاغذات خریدنے کے لیے جو رقم استعمال کی جانی تھی وہ بغیر استعمال کیے سرمایہ کاری کی اسکیم میں جمود کا شکار تھی۔ جب حکومت نے 2020 میں اعلان کیا کہ وزارتوں کے پاس تمام نقد رقم قومی خزانے میں رکھی جائے گی، تو آڈٹ نے غیر منافع بخش اکاؤنٹ میں جرمن عطیہ کو برقرار رکھنے کا پردہ فاش کیا۔ وزارت نے آڈٹ اعتراض کے جواب میں فنڈز روک لیے۔ تاہم زکوٰۃ کی کٹوتی اور ودہولڈنگ ٹیکس کا مسئلہ پیدا ہوا۔

صدر عارف علوی نے نوٹ کیا کہ وزارت تعلیم ود ہولڈنگ ٹیکس اور زکوٰۃ کی کٹوتیوں سے استثنیٰ کا دعوی کرنے کے لیے انکم ٹیکس اور زکوٰۃ کٹوتیوں کے استثنیٰ کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی، جو موجودہ پالیسی کے تحت وزارت کے لیے جائز تھے۔

وزارت تعلیم کی جانب سے استثنیٰ کا سرٹیفکیٹ فراہم کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں،

 سی ڈی این ایس نے ودہولڈنگ ٹیکس اور زکوٰۃ کو روک دیا۔

یہ وزارت تعلیم کی حکومتی سرمایہ کاری کو دانشمندی اور مؤثر طریقے سے منظم کرنے کی صلاحیت کا پول کھولتی ہے کہ حکومت باہر سے ملنے والے فنڈز کا موثر استعمال تک کرنا نہیں جانتی اور وسائل کو بے دریغ انداز میں ضائع کرتی رہی ہے۔  

صدر مملکت نے وفاقی وزارت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کو اختیار دیا کہ وہ سابقہ ​​استثنیٰ سرٹیفکیٹس کے لیے ایف بی آر اور محکمہ زکوٰۃ سے رابطہ کرے اور ضوابط اور قوانین کے مطابق استثنیٰ سرٹیفکیٹ فراہم کرنے پر غور کرے۔

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو