خیالات کی بندش کیسے دور کی جائے؟
خیالات کی بندش کیسے دور کی جائے؟
لکھنے کی صلاحیت کا معطل ہوجانا یا خیالات کے بہائو میں بندش آجانا ہر طالب علم اور پیشہ ور لکھاری کے ساتھ قدرت کی طرف سے ایک ایسا معاملہ ہے جس کی ابھی تک کوئی ٹھوس وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ اس میں ذہین ترین شخص بھی ایک دم اپنے اردگرد اور ماحول سے لا تعلق ہو کر کسی خلا میں معلق ہوجاتا ہے اور اسے سمجھ ہی نہیں آتی کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ یقیناً یہ ایک تشویشناک مرحلہ ہوتا ہے خاص طور پر اُس وقت جب آپ نے اپنے مضامین کی پوری طرح تیاری کررکھی ہو مگر عین وقت پر آپ کی لکھنے کی صلاحیت کہیں غائب ہوجائے اور آپ سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہیں کہ اب کیا ہوگا۔؟
یقیناً یہ ایک انسان کے لیے ناقابلِ دست اندازی معاملہ ہوتا ہے جس میں کوئی نادیدہ قوت آپ کے خیالات کو معطل کرکے حواس کو مختل کردیتی ہے اور آپ کی شفافیت کے ساتھ سوچنے کی صلاحیت تھم جاتی ہے۔ دماغ بند ہونے لگتا ہے اور ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔
تاہم دنیا بھر میں موجود پیشہ ور لکھنے والے اور متعدد طالب علم ایسے کچھ گُر اور حکمتِ عملی اپناتے ہیں جس کے ذریعے وہ اس مسئلے سے نمٹ سکیں جو اُن کی لکھنے کی صلاحیت کو خراب کرنے پر تُلی ہوتی ہے۔
سب سے پہلے تو ہم اس کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کریں گے تاکہ ہم اس مسئلے سے نمٹ سکیں۔
لکھنے کے سلسلے میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہے، اس لیے جب آپ دیکھیں کہ آپ کا ذہن ایک دم بند ہو گیا ہے اور آپ کے خیالات کی ترسیل میں رکاوٹ آ رہی ہے تو اس وقت یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ ہوسکتا ہے آپ نے لکھنے کے لئے نامناسب وقت کا انتخاب کیا ہو، مثال کے طور پر آپ کو اپنی تحریر صبح کے 8 بجے جمع کرانی ہے اور آپ سویرے 4 بجے اٹھ کر لکھنے بیٹھ جائیں تو ایسے میں یقیناً آپ کا فکری نظام مددگار ثابت نہیں ہوگا اور آپ کی لکھنے کی صلاحیت پوری طرح کارگر نہیں ہوگی۔ اس لئے لکھنے کے اوقات کو مدِنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
بہت سارے لکھاریوں کو اپنے خیالات دوسروں کے ساتھ بانٹتے وقت ایک طرح کا خوف اور عدم تحفظ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں ان کے خیالات پر تنقید نہ ہو یا ان کے پیش کردہ خیال کو یکسر مسترد کردیا جائے، ہوسکتا ہے لکھنے والے کے تئیں ایک خیال اچھا ہو مگر دوسرے کی نظر میں اس کی کوئی قدر و منزلت نہ ہو لہٰذا یہ خوف بھی نفسیاتی طور پر آپ کو اپنے خیالات کاغذ پر اتارنے سے روکتا ہے۔ نامور مصنف ایذر اپائونڈ نے کہا تھا اگر ایک آدمی اپنی آرا کی خاطر خطرہ مول لینے پر تیار نہیں تو اس کی آرا معقول نہیں یا پھر وہ خود معقول نہیں۔،،
اپنی رائے کا بے باکانہ اظہار بھی بعض اوقات آپ کو بات کہنے سے روکتا ہے جس کے نتیجے میں لاشعوری طور پر آپ کے خیالات کی ترسیل میں گرہ لگ جاتی ہے اور آپ اپنی سوچ کو بندش کا شکار پاتے ہیں۔
ہر بار درجہِ کمال کو پہنچی ہوئی یا پرفیکٹ تحریر لکھنا بھی ممکن نہیں ہوتا اس لئے کئی بار آپ اپنے لکھنے کے کاغذ یا ورڈ کی فائل کھول کر گھنٹوں تک خالی الذہنی کی کیفیت میں بیٹھے اسے تکتے رہتے ہیں، آپ کے ذہن میں آنے والے بیشتر خیالات اس لئے صفحہ قرطاس پر نہیں اُتر پاتے کہ آپ انہیں لکھنے سے پہلے ہی درجہ کمال پر رکھنے کا سوچ رہے ہوتے ہیں۔ آپ کا دماغ آپ کے سامنے متعدد حل پیش کرتا ہے جن کے ذریعے آپ بہترین تحریر لکھ سکتے ہیں مگر آپ تذبذب کا شکار رہتے ہیں اور مضمون باندھنے کے لئے کسی ایک خیال کو منتخب کرنے میں ہچکچاتے رہتے ہیں اور اسی جھجھک میں آپ کا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔
ایک بار جب آپ اس رکاوٹ کی وجہ کو جان لیں گے تو پھر آپ کو اچھے سے اچھا لکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
اب وقت آگیا ہے کہ آپ ذیل میں دی گئی حکمت عملیوں پر عمل کریں اور اپنی لکھنے کی صلاحیت میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کریں۔
ذیل میں ہم آپ کے لیے لکھنے کی صلاحیت میں آنے والی رکاوٹ کو دور کرنے کی مہارتیں اور حکمت عملیاں درج کررہے ہیں جو یقیناً آپ کے کام آئیں گی۔
آج کی اس ڈیجیٹل دنیا میں ہمارا دماغ بھی ایک ہی وقت میں مختلف امور سر انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جیسے اپنے اسمارٹ فون پر ہم ایک ہی وقت میں مختلف ایپلی کیشنز کھول لیتے ہیں عین ایس طرح ہم ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانا کھا سکتے ہیں، ہم راہ چلتے اپنے اسمارٹ فون پر مختلف کام کر سکتے ہیں تاہم جب آپ لکھنے کا کام کررہے ہوں تو اس وقت آپ کو ایک وقت میں ایک ہی کام کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے کیونکہ ایک وقت میں مختلف کام کرتے ہوئے ہمارا دماغ مختلف خانوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے۔ لکھنے کا کام ایسا نہیں ہے کہ آپ ٹی وی دیکھتے ہوئے کچھ ہلکا پھلکا کھانا کھاتے رہیں یہ کام مکمل توجہ اور دھیان مانگتا ہے اس لئے جب آپ لکھنے بیٹھیں تو سارا دھیان اس ایک کام پر مرکوز ہونا چاہیے ایسے عالم میں کھانے سے گریز کریں، اپنے اسمارٹ فون پر آنے والے نوٹیفکیشنز کو توجہ مت دیں اور ٹی وی مت دیکھیں۔
رنگ اور روشنیاں ہمارے مزاج اور کیفیات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ گہرے رنگ اور کم روشنی ہمیں نیند کی طرف مائل کرتی ہے اور ہمارا دماغ تھکا ہوا محسوس کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ہمارے جسم کو نیند اور آرام لینے کا پیغام دیتا ہے۔ لہٰذا اپنے کمرے کو ہلکی اور اُجلی روشنیوں سے مزین کریں، دیواروں پر ایسا رنگ یا وال پیپر لگائیں جس کے رنگ ہلکے پھلکے ہوں اور کھِلے کھِلے ہوں جو آپ کے مزاج پر خوشگوار اثر ڈالیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہلکے اور اُجلے رنگ نہ صرف آپ کی ذہنی توانائی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ آپ کے شعور کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بھی جگاتے ہیں۔
بعض اوقات آپ یہ چاہتے ہیں کہ اپنے ذہن و دل کو تازہ دم کرنے کے لئے تمام کاموں کو اٹھا کر ایک طرف رکھیں اور لمبی سی چہل قدمی کے لئے کہیں نکل جائیں۔ جب آپ اپنے علاقے میں یا اپنی کسی پسندیدہ جگہ پر چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں تو ایسے عالم میں آپ کا دماغ خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور اس میں بہت سارے تازہ خیالات آتے ہیں ان میں سے کچھ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو آپ کو اپنی مضمون نگاری میں مدد دے سکیں۔ اس لئے روزانہ وقت نکال کر چہل قدمی کرنا بہت ضروری
کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ نے کسی مضمون پر کوئی تحقیق نہیں کی ہوتی اور آپ یہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد اس موضوع پر کچھ لکھ لیں مگر آپ لاکھ جتن کے باوجود کچھ لکھ نہیں پاتے اور اسی کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں جسے ہم نے رائٹرز بلاک یا خیالات کی بندش کا نام دیا ہے۔ اس کی وضاحت کے سلسلے میں ہم آپ کو یہ بتانا چاہیں گے کہ ذہن میں خیالات کا ہجوم ہونا اور بات ہے اور اپنے موضوع سے متعلق مناسب اور موزوں خیالات کا آنا ایک دوسری بات ہے۔ مطالعے اور تحقیق کی کمی کے باعث آپ کا دماغ بے جا خیالات کا مرکز بن جاتا ہے اور لاکھ کوشش کے باوجود آپ اپنے موضوع پر مرتکز رہتے ہوئے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپاتے۔ اس لیے جس موضوع پر آپ کو مضمون نگاری کرنی ہو اس کے بارے میں تحقیق کریں، متعلقہ دستاویز اور کتابیں پڑھیں تاکہ آپ کے خیالات میں وسعت پیدا ہو اور لکھتے وقت آپ الفاظ کی کمی کا شکار نہ ہوں۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کے پاس لکھنے کے لئے کوئی ٹھوس خیال نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسی کوئی تحریک ہوتی ہے جس کے تحت آپ کچھ لکھ سکیں۔ ایسے عالم میں ایک چیز جو آپ کے لئے بہت کارآمد ثابت ہوسکتی ہے وہ ہے آپ کو تحریک دینے والی ویڈیوز جو کہ آپ یوٹیوب پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یقین کریں ایسی متحرک کرنے والی ویڈیوز دیکھ کر آپ کے ذہن و دل میں ایک لہر دوڑ جائے گی اور کچھ نیا اور اچھا کر دکھانے کی لگن پیدا ہوگی۔ ہوسکتا ہے اس سے آپ کو کوئی نیا خیال یا تصور بھی مل جائے جس پر آپ اپنا کوئی مضمون باندھ سکیں۔
اس کے علاوہ بھی کچھ ایسی معمولی چیزیں ہیں جن پر عمل کرکے آپ اپنی مضمون نگاری کی صلاحیت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ تاہم ہر چیز ہر شخص کے لیے نہیں ہوتی اس لئے ہوسکتا ہے کہ ہمارے بتائے گئے کچھ حل آپ کے لئے کارآمد ثابت نہ ہوں مگر آپ کے کسی دوست کے کام آ جائیں۔ اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ دیوار کو توڑنے پر محنت کرنے کے بجائے اس دیوار کو پار کرنے کے لئے اس میں ایک خوبصورت دروازہ بنا لیا جائے۔
ہماری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔