یونیورسٹیوں کے چانسلرز کی ہائر ایجوکیشن کے بجٹ کے تحفظ کی اپیل

یونیورسٹیوں کے چانسلرز کی ہائر ایجوکیشن کے بجٹ کے تحفظ کی اپیل

یونیورسٹیوں کے چانسلرز کی ہائر ایجوکیشن کے بجٹ کے تحفظ کی اپیل

 وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال اور وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت رانا تنویر حسین نے سرکاری یونیورسٹیوں کے سربراہان کو یقین دلایا ہے کہ حکومت مالی سال برائے 2022-23میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے بجٹ میں کوئی کمی نہیں کرے گی۔

دونوں وزراء اسلام آباد میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی وائس چانسلرز کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ اجلاس میں تمام سرکاری اداروں کے وائس چانسلرز کے ساتھ ساتھ کمیشن (ایچ ای سی کی گورننگ باڈی) کے اراکین نے بھی شرکت کی۔

وائس چانسلرز نے مالی سال برائے 2022-23 کے لیے اعلیٰ تعلیم کت شعبے کے لیے صرف 30 ارب روپے کے بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ تاہم انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ کو تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت کو سراہا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایچ ای سی نے آئندہ مالی سال کے لیے 104.983 بلین روپے کا معقول مطالبہ کیا ہے اور اس رقم کو محفوظ کرنے کی ضرورت تھی،  جس پر انہوں نے وزارت خزانہ کے ساتھ مل کر کام کیا۔

احسن اقبال نے کہا کہ حکومت ملک کی ترقی میں اعلیٰ تعلیم اور یونیورسٹیوں کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر استعمال کرنے کے لیے کالجوں کو ملک کو درپیش حالات اور مشکلات کو سامنے لانے کی اہمیت پر زور دیا۔

وفاقی وزیر کے مطابق، یونیورسٹیاں تقریباً 20 لاکھ نوجوانوں کی رہنمائی کرتی ہیں جو ملک کے مستقبل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹیوں کے کلاس رومز اور لیبارٹریوں کو قومی سلامتی کی سرحدیں قرار دیا اور وائس چانسلرز کو کور کمانڈر کہا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وائس چانسلرز نوجوانوں کو مستقبل کی مشکلات کے لیے تیار کرنے کے انچارج ہیں۔

وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر نے اعلان کیا کہ وہ یونیورسٹیوں کےلیے104.983 بلین  روپے فنڈنگ کے جائز مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے ملک کے نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر فراہم کرنے کے لیے یونیورسٹیوں میں معیاری تعلیم، اختراعات اور تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت یونیورسٹیوں کے مالیاتی انتظام کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرے گی۔ انہوں نے وائس چانسلرز کی اس درخواست سے اتفاق کیا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص مالیاتی رقم کو جی ڈی پی میں اضافے سے جوڑ دیا جائے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ سہیل نے بتایا کہ سرکاری یونیورسٹیاں پہلے ہی مالی دباؤ کا شکار ہیں اور کچھ کالجز اپنے اساتذہ اور اسٹاف کی تنخواہ اور پنشن ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت یونیورسٹیوں کو چلانے کے لیے درکار نقد رقم کا تقریباً 34 فیصد حصہ دیتی ہے، جب کہ صوبے 6سے8 فیصد حصہ دیتے ہیں، باقی اخراجات ادارے اپنے طور پر پورا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری کالجوں کو سیمسٹر کی فیس ایک خاص حد کے اندر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کم آمدنی والے خاندانوں کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔

متعلقہ بلاگس

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو