ناسا نے جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کی ابتدائی رنگین تصاویر جاری کردیں
ناسا نے جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کی ابتدائی رنگین تصاویر جاری کردیں
ناسا کے حکام نے 12 جولائی بروز منگل کو کہکشاں سے جڑی اب تک کی سب سے بڑی اور سب سے طاقتور آبزرویٹری کے ذریعے لی گئی شاندار تصاویر کو دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔
ناسا نے جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ سے پہلی مکمل رنگین، ہائی ریزولوشن تصاویر کے اجراء کو فلکیاتی ریسرچ میں ایک اہم موڑ قرار دیا ہے۔ اس دوربین کو کائنات کی ابتدا کے شواہد کو زیادہ دور اور زیادہ واضح طور پر دیکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
نو بلین ڈالر سے بنائی گئی انفراریڈ دوربین، جو تقریباً 20 سال سے کام کر رہی ہے اور اسے ناسا کے لیے ایرو اسپیس جائنٹ نارتھروپ گرومن کارپوریشن نے بنایا ہے اسے 25 دسمبر2021 کو لانچ کیا گیا تھا اور ایک ماہ بعد یہ شمسی مدار میں اپنے ہدف پر پہنچی، جو زمین سے تقریباً 1 ملین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
جیمزویب کے آئینے کو دور سے ترتیب دینے اور اس کے آلات کو کیلیبریٹ کرنے میں مہینوں گزارنے کے بعد، دوربین اب بہترین حالت میں ہے اور اسے کہکشاؤں کے ارتقاء، ستاروں کے لائف سائیکل، دور دراز کے سیاروں کے نظاموں کے ماحول، بیرونی نظام شمسی میں موجود دوسری چیزوں کے علاوہ ہمارے زمینی چاندوں کا مطالعہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
تقریباً 300 سائنسدانوں، ٹیلی اسکوپ انجینئرز، سیاست دانوں، اور ناسا اور اس کے بین الاقوامی شراکت داروں کے سینئر عہدیداروں کا میری لینڈ میں ایجنسی کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر میں ایک کھچا کھچ بھرے آڈیٹوریم میں خیرمقدم کیا گیا اور اس شاندار کامیابی کا جشن منایاگیا۔
ناسا کے ایڈمنسٹریٹر، جیمز نیلسن نے اس منظر کو ایک 'پیپ ریلی' کے طور پر بیان کیا اور ٹیلی سکوپ کے نتائج کو ہر بار ایک نئی دریافت قراردیا۔
تصاویر کا پہلا سیٹ، جسے ویب کے خام ڈیٹا سے تیار کرنے میں کئی ہفتے لگے، ناسا نے دوربین کی صلاحیت کو اجاگر کرنے اور آنے والے سائنسی مشننز میں مددرنے کے لیے منتخب کیا تھا۔
سب سے زیادہ متاثر کن پہلی تصویر دور دراز کہکشاں کے جھرمٹ کی ایک "ڈیپ فیلڈ" تصویر تھی، جو اب تک کی گئی ابتدائی کائنات پر سب سے زیادہ گہرائی سے نظر ڈالتی ہے۔ زمین سے ہزاروں نوری سال دور گیس کے دو وسیع بادل اور دھول جو نئے ستاروں کے لیے انکیوبیٹر بنانے کے لیے سپرنووا دھماکوں کے ذریعے خلا میں بھیجے گئے تھے، ان چار مزید ویب موضوعات میں شامل تھے جن کی تصاویر منگل کے روز سامنے آئیں۔ اس کے علاوہ اس مجموعے میں اسٹیفنز کوئنٹیٹ کی بالکل نئی تصویریں شامل ہیں، جو کہ کہکشاں کا ایک جھرمٹ ہے جسے ابتدائی طور پر 1877 میں دیکھا گیا تھا۔ منظر کشی کے علاوہ، ناسا نے گیارہ سو نوری سال سے زیادہ دوری پر واقع مشتری کے سائز کے سیاروں کے نظام کا، جیمز ویب کا پہلا اسپیکٹروگرافک ایگزامینیشن جاری کیا، جس نے فضا میں پانی کے بخارات کی موجودگی کو ظاہر کیا۔
جیمز ویب اپنی 30 سال پرانے پیشرو ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ سے تقریباً 100 گنا زیادہ حساس ہے، جو زیادہ تر آپٹیکل اور الٹرا وایلیٹ ویولینتھ پر کام کرتی ہے۔ اس ویب کو بنیادی طور پر انفراریڈ اسپیکٹرم میں اپنے آبجیکٹس کو دیکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
جیمز ویب کا جدید ڈیزائن اسے زیادہ فاصلے پر اشیاء کا مشاہدہ کرنے کے قابل بناتا ہے اور نتیجتاً وقت کے ساتھ ساتھ۔ اس کے انفراریڈ آپٹکس ویب کے مشاہدات کو گیس اور دھول کے بادلوں سے گزرنے کے قابل بناتے ہیں۔