علی گڑھ یونیورسٹی کے نصاب سے مولانا مودودی اور سید قطب کو نکال کر ہندو مذہب کا کورس متعارف کروا دیا گیا

علی گڑھ یونیورسٹی کے نصاب سے مولانا مودودی اور سید قطب کو نکال کر ہندو مذہب کا کورس متعارف کروا دیا گیا

علی گڑھ یونیورسٹی کے نصاب سے مولانا مودودی اور سید قطب کو نکال کر ہندو مذہب کا کورس متعارف کروا دیا گیا

 انڈیا کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک سٹڈیز میں اب سناتن دھرم یعنی  کمپیئرٹیو ریلیجن بھی پڑھایا جائے گا۔

انگریزی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ نے یونیورسٹی کے ترجمان عمر سلیم پیرزادہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ پوسٹ گریجویٹ طلبا کے لیے سناتن دھرم پر ایک نیا کورس متعارف کروایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبا آتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے اسلامک سٹڈیز (ایم اے) کے شعبہ میں سناتن دھرم پر ایک کورس شروع کیا ہے، عمر پیرزادہ نے بتایا کہ گذشتہ 50 برسوں سے علی گڑھ یونیورسٹی کے تھیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں تمام مذاہب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے پوسٹ گریجوئیٹ طلبا کو سناتن دھرم کے بارے میں پڑھایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان کی یہ خواہش تھی کہ تمام مذاہب کے طلبا اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں۔

شعبہ اسلامیات کے چیئرمین پروفیسر محمد اسماعیل نے اس بارے میں وائس چانسلر کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شعبہ اسلامیات میں نیا کورس شروع کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ چند روز قبل ہی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک سٹڈیز نے اسلامی سکالرز ابوالاعلیٰ مودودی اور سید قطب کی شخصیات پر مبنی اسباق کو نصاب سے نکال دیا تھا۔ یہ گذشتہ کئی دہائیوں سے اختیاری یعنی آپشنل مضامین کے طور پر پڑھائے جا رہے تھے۔

سماجی کارکن مدھو کشور سمیت ملک کے 20 سے زیادہ دائیں بازو کے ماہرین تعلیم نے 27 جولائی کو وزیراعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان سکالرز نے سرکاری فنڈ سے چلنے والی، علی گڑھ یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہمدرد یونی ورسٹی سمیت دیگر یونیورسٹیوں میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے متعلق مضامین پڑھائے جانے پر اعتراض کیا تھا۔

 

یہ خط لکھے جانے کے کچھ ہی روز بعد علی گڑھ یونیورسٹی انتظامیہ نے خود سے فیصلہ کرتے ہوئے مودودی اور سید قطب سے متعلق مواد کو نصاب سے ہٹا دیا تھا۔ دائیں بازو کے علما نے خط میں دعویٰ کیا تھا کہ ’مودودی کا تعلق اسلامی بنیاد پرستی سے ہے اور انہیں اور ان کے جیسے دیگر علما کو مرکزی یونیورسٹیوں کے نصاب میں نہیں پڑھایا جانا چاہیے۔

اس فیصلے کے بعد مدھو کشور نے ٹویٹ کیا کہ ’مولانا مودودی کے مضامین کو نصاب سے ہٹایا جانا اس بات کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے کہ وہ جہاد کو ایک مسلمان پر فرض قرار دیتے تھے۔ ان یونیورسٹیوں کے مکمل نصاب پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔

وزیرِ اعظم کو لکھے گئے اپنے خط میں مدھو کشور نے مولانا مودودی کا بار بار ذکر کرتے ہوئے ان کے مضامین کو ’جہادی تنظیموں‘ کی جانب سے استعمال کیے جانے کا الزام لگایا تھا۔

 یونیورسٹی انتظامیہ کا کیا کہنا ہے؟

نصاب سے ہٹائے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے پروفیسر شفیع قدوائی کہتے ہیں کہ 'ایم اے اسلامک سٹڈیز میں اسلامی تھنکرز کے نام سے ایک اختیاری مقالہ ہے، جس میں بہت سے اسلامی مفکرین جیسے سید قطب اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی شامل ہیں۔

 یہ لازمی مضمون نہیں بلکہ یہ ایک اختیاری مضمون تھا۔ اُن (مولانا مودودی اور سید قطب) کے خیالات کے حوالے سے تنازع تھا، اس لیے ہم نے ان سے متعلق مضامین کو نصاب سے ہٹا دیا۔ کیونکہ یہ ایک آپشنل پیپر ہے، اس لیے اسے روکا جا سکتا تھا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ فیصلہ مدھو کشور اور دیگر ماہرین تعلیم کی جانب سے وزیر اعظم کو لکھے گئے خط کی وجہ سے کیا گیا؟ تو شفیع قدوائی کا کہنا تھا ’یہ تو نہیں معلوم لیکن اخبارات اور میڈیا میں تنازع ہوا اور لوگوں نے اعتراضات اٹھائے، اس سب سے بچنے کے لیے ہم نے یہ قدم اٹھایا، ان مفکرین کی تحریروں میں پین اسلام ازم کے متعلق باتیں ہیں جن کی بہت سی تشریحات ہیں۔

لیکن کیا اس قدم کے لیے طے شدہ طریقہ کار پر عمل کیا گیا ہے؟

نصاب میں تبدیلی کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے، شفیع قدوائی کہتے ہیں، ہم ضابطے کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ اسے عارضی طور پر ہٹا دیا گیا ہے اور ہم اسے مکمل طور پر ہٹانے کے عمل پر کام کر رہے ہیں۔

اس طرح کے عمل میں سب سے پہلے بورڈ آف اسٹڈیز ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایک آپشنل پیپر ہے تو ہم اسے بند کر سکتے ہیں۔ ہم لازمی پیپر کو اس طرح نہیں ہٹا سکتے۔ بورڈ آف سٹڈیز کا اجلاس ہوگا اور پھر یہ اکیڈمک کونسل میں جائے گا اور بالآخر اسے ہٹا دیا جائے گا، ابھی فی الوقت اسے چیئرمین نے عارضی طور پر روک دیا ہے۔

 

سید قطب اور مولانا مودودی کب سے کورس کا حصہ تھے؟

اس بارے میں اُن کا کہنا تھا ’یہ ایک طویل عرصے سے پڑھایا جا رہا تھا، درست تاریخ کا علم نہیں لیکن یہ کئی برسوں سے پڑھایا جا رہا تھا۔

یونیورسٹی کے دیگر پروفیسر اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

علی گڑھ میں مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سابق چیئرمین اور موجودہ پروفیسر عبید اللہ فہد کہتے ہیں، ’مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی لکھی گئی کتابوں پر سب سے زیادہ اعتراضات ہو رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ 20ویں صدی کے سب سے بڑے مسلم اسکالر ہیں، ان کے اثرات پوری مسلم دنیا، یورپ اور امریکہ پر ہیں، چونکہ وہ مغربی استعمار کے خلاف سب سے مضبوط آواز بن کر ابھرے تھے اس لیے ان کے خلاف سب سے زیادہ مواد اس وقت مغربی ادب میں پایا جاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ 'میں مودودی کے بارے میں پچھلے 50 برسوں سے پڑھ رہا ہوں، میں نے ان پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، مجھے ایک بھی ایسی سطر نہیں ملی جس میں انھوں نے دہشت گردی کی، تشدد کی یا غیر جمہوری بات کی ہو۔ وہ ہمیشہ سے یہی لکھتے رہے کہ ہمیں اسلام کے لیے کام کرنا ہے اور وہ طریقہ اختیار کرنا ہے جو پیغمبر اسلام نے اپنایا تھا یعنی پُرامن، جمہوری اور آئینی۔

اسلامیات کے نصاب کے بارے میں پروفیسر عبید اللہ فہد کہتے ہیں، ’ہم یہاں کتابیں نہیں پڑھاتے، ہم مفکرین کو پڑھاتے ہیں۔ ان میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، محمد اقبال، اشرف علی تھانوی، آمنہ حسن اسلامی اور مولانا احمد رضا شامل ہیں۔

مولانامودودی کون ہیں؟

ابوالاعلیٰ مودودی 1903 میں اورنگ آباد، مہاراشٹر میں پیدا ہوئے تھے اور 24 سال کی عمر میں انہوں نے اپنی پہلی کتاب ’الجہاد فی اسلام' لکھی۔

سنہ 1941 میں انہوں نے لاہور میں ’جماعت اسلامی‘ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ یہاں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ وہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے خلاف تھے لیکن 1947 میں تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان چلے گئے۔

انہوں نے پاکستان میں اسلامی قانون کے نفاذ کی وکالت کی اور اس دوران وہ کئی مرتبہ گرفتار بھی ہوئے، سنہ 1972 میں انہوں نے قرآن کی تفسیر (تفہیم القرآن) مکمل کی جس پر وہ گذشتہ لگ بھگ 30 سال سے کام کر رہے تھے۔ سنہ 1979 میں وہ علاج کے لیے امریکہ گئے اور وہیں ان کی وفات ہوئی اور انہیں لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔

مولانا مودودی نے اپنی زندگی میں 70 سے زائد کتابیں لکھیں اور ایک ہزار سے زائد تقاریر کیں۔

سید قطب سنہ 1906 میں بالائی مصر کے صوبہ اسیوت میں پیدا ہوئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد سنہ 1933 میں وہ معلم بن گئے۔

وہ مغربی تہذیب و ثقافت کے بہت بڑے نقاد تھے۔ سنہ 1948میں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ گئے اور دو سال تک وہاں رہے اس دوران سنہ 1949 میں انہوں نے ’اسلام میں سماجی انصاف‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔

امریکہ سے واپسی کے بعد انہوں نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ’امریکہ جسے میں نے دیکھا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں قیام کے دوران وہ مغربی تہذیب و ثقافت سے نفرت کرنے لگے تھے حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ وہ اپنے لباس، کلاسیکی موسیقی اور ہالی وڈ فلموں کو پسند کرنے کی وجہ سے کافی حد تک مغربی طریقوں پر عمل بھی کرتے تھے۔

سید قطب نے اپنی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور 'اخوان المسلمین' نامی تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ بہت جلد وہ اس تنظیم سے منسلک اخبار کے ایڈیٹر بن گئے اور تنظیم کے اعلیٰ ترین ادارے کے رکن بھی بنے۔ سنہ 1952 میں جب جمال عبدالناصر نے مصری حکومت کا تختہ الٹ دیا تو سید قطب اور اخوان المسلمین نے ناصر کی حمایت کی۔ ناصر نے انہیں ان کی پسند کی وزارت دینے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے اسے ٹھکرا دیا۔

سنہ 1954 میں، سید قطب اور اخوان المسلمین نے ناصر کا تختہ پلٹنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے اور قطب سمیت اخوان المسلمین کے بہت سے رہنماؤں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا۔

جیل میں رہتے ہوئے سید قطب نے قرآن کی تفسیر لکھی اور 'مائل اسٹون کے نام سے ایک کتاب لکھی۔

یہ دونوں کتابیں ان کے پورے نظریے کا پتہ دیتی ہیں۔ انہیں سنہ 1964 میں جیل سے رہا کیا گیا لیکن چند ماہ بعد سنہ 1965 میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت نے انہیں مجرم قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائی اور 29 اگست 1966 کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔

متعلقہ بلاگس

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو