ملک میں خواندگی کی شرح 60 فیصد پر آ کر رک گئی، سروے

ملک میں خواندگی کی شرح 60 فیصد پر آ کر رک گئی، سروے

ملک میں خواندگی کی شرح 60 فیصد پر آ کر رک گئی، سروے

ملک میں 10 سال تک کے بچوں اور اس سے اوپر کی عمر کے افراد میں خواندگی کی شرح 60 فیصد پر رُکی ہوئی ہے۔

پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میژرمینٹ سروے برائے 2019-20 کے نتائج میں دیکھا گیا ہے کہ سندھ نے شرح خواندگی میں کمی کا رجحان ظاہر کیا ہے۔

یہ سروے پاکستان کے اعدادوشمار کے بیورو (پی بی ایس) نے کیا ہے، جس کا مقصد قومی ، صوبائی اور ضلعی سطح پر ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کے لیے شواہد پر مبنی پالیسی سازی کے لیے اعداد و شمار فراہم کرنا ہے۔

اس سروے نے تعلیم، صحت، رہائش، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، صفائی ستھرائی  اور حفظان صحت سے متعلق شہری اور دیہی خامیوں کے ساتھ ضلعی سطح پر نتائج کے تفصیلی اشارے فراہم کیے، نیز انفارمیشن کمیونیکیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی)  خوراک کے عدم تحفظ کے تجربے کے پیمانے اور معذوری سے متعلق معلومات کے ساتھ ساتھ نقل مکانی کے بارے میں بھی اشارے ملے ہیں۔

سروے کے مطابق صوبوں میں پرائمری، مڈل اور میٹرک کی سطح پر انرولمنٹس یا تو جمود کا شکار رہے ہیں یا پھر بچوں کے اسکول میں داخلہ لینے کے عمل میں کمی واقع ہوئی ہے۔

تمام سطحوں پر اندراجات پنجاب میں سب سے زیادہ ہیں، اس کے بعد خیبر پختونخوا (کے پی) اور سندھ ہیں جبکہ بلوچستان میں سب سے کم تعداد میں بچے اسکول میں داخل کیے گئے ہیں۔

سروے میں بتایا گیا ہے کہ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے اسکول جانے کی عمر کے 32 فیصد بچے فی الحال اسکولوں سے باہر ہیں۔

 اسکولوں سے باہر رہنے والے بچوں میں سے سب سے زیادہ فیصد بلوچستان میں47 فیصد اور سب سے کم پنجاب میں 26 فیصد ہے۔

پنجاب میں راجن پور، سندھ میں ٹھٹھہ، ​​کے پی میں کوہستان اور باجوڑ جبکہ بلوچستان میں قلعہ عبد اللہ اور زیارت کے علاقے اپنے اپنے تعلیم کے اشاریوں میں سب سے نیچے ہیں۔

پی ایس ایل ایم کا کہنا ہے کہ 2014 اور 15 کے مقابلے میں اس حالیہ سروے 2019، 20 میں صحت کے تمام اشاریوں میں بہتری کا رجحان ظاہر ہوا ہے۔

سروے میں بتایا گیا ہے کہ 12 سے 23 کی عمر کے بچوں کے ریکارڈ پر مبنی مکمل حفاظتی امیونائزیشن 2014 اور 15 کے سروے کے مطابق 60 فیصد تھی جو 2019 اور 20 کے سروے میں بڑھ کر 70 فیصد ہوگئی ہے۔ اور تمام صوبوں میں اس کا بڑھتا ہوا رجحان دیکھا گیا ہے۔

پی ایس ایل ایم 2014-15 کے دوران ریکارڈ شدہ 73 فیصد کے مقابلے میں 15 سال سے لے کر 49 سال تک کی خواتین میں بچوں کی دیکھ بھال کے عمل میں پہلے کی نسبت نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ماں اور بچوں کی صحت کے حوالے سے ایک اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ مجموعی طور پر پاکستان میں زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کرنے والے ملازمین کی شرح میں سال 2019-15 کے مقابلے میں بڑھ کر 68 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جبکہ 2014-15 میں یہ ریکارڈ 58 فیصد تھا۔ تاہم، سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صحت کے اشاریوں سے متعلق صوبوں میں واقع ضلعی حالات میں کافی فرق ہے۔

سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ مجموعی طور پر 12 فیصد گھرانوں کے پاس کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ ہیں، 93 فیصد کے پاس اپنے موبائل فون ہیں اور 33 فیصد شہری علاقوں میں عوام کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ مجموعی طور پر دس سال یا اس سے اوپر کی عمر کے 45 فیصد افراد اپنے ذاتی موبائل فون اور 19 فیصد انٹرنیٹ سہولیات کا استعمال کرتے ہیں۔

تاہم، ان دونوں اشاریوں میں صنف کی سطح پر بڑا فرق موجود ہے جس میں 65 فیصد مردوں کے پاس موبائل موجود ہیں جبکہ اس میں 25 فیصد خواتین ہیں جو اپنا ذاتی موبائل فون رکھتی ہیں۔

رہائش کی سہولیات کے سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ صوبوں کے اندر شہری اور دیہی علاقوں کے تقریباً تمام اشاریوں میں بڑا فرق موجود ہے۔

پاکستان میں مجموعی طور پر تقریباً 96 فیصد گھرانے روشنی کے لیے بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ 91 فیصد کمپنیوں سے فراہم کردہ بجلی اور 5 فیصد شمسی پینل سے پیدا ہونے والی بجلی استعمال کرتے ہیں۔

تقریبا 48 فیصد گھرانے گیس کو کھانا پکانے کے لیے اہم ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ 37 فیصد گھرانے روشنی، کھانا پکانے اور حرارتی نظام کے لیے صاف ایندھن کا استعمال کررہے ہیں۔

پینے کے پانی کے لیے 94 فیصد گھرانے پانی کی بہتر سہولیات استعمال کررہے ہیں جن میں پائپڈ واٹر، موٹر پمپ، ہینڈ پمپ، محفوظ کنویں، محفوظ چشمہ، بوتل والا پانی، واٹر ٹینکر وغیرہ شامل ہیں۔

سروے نے بتایا کہ 68 فیصد افراد کو بیت الخلا کی سہولت تک رسائی حاصل ہے جو دوسروں کے ساتھ شیئر نہیں کی جاتی۔ سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پر84 فیصد گھرانوں کو  محفوظ خوراک حاصل ہے۔ 14 فیصد گھرانوں سے خوراک کے عدم تحفظ کی اطلاع دی ، جبکہ 2 فیصد گھرانوں میں کھانے کے شدید عدم تحفظ کی اطلاع ملی۔

سروے میں بتایا گیا ہے کہ خوراک کے عدم تحفظ کا پھیلاؤ بلوچستان میں سب سے زیادہ 23 فیصد ہے اور کے پی میں سب سے کم 14 فیصد ہے

متعلقہ بلاگس

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو