صحافت کے بدلتے ہوئے رجحانات
صحافت کے بدلتے ہوئے رجحانات
وہ تمام افراد جنہوں نے سِن 2000 کے اوائل میں ماس کمیونیکیشن میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی ان کے لئے ماس کمیونیکیشن میں نئی اور معیاری تھیوریز کو سیکھنے کے مواقع دوسروں سے زیادہ ہیں۔ ایسے افراد کے لیے خبریں بنانے، صحافت کی اخلاقیات اور نئے قوانین کو سمجھنے کی گنجائش بھی بہت زیادہ ہے۔
ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں صحافت اور ابلاغِ عامہ کے میدان میں بے تحاشہ تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان گزرے دس برسوں میں صحافت پرنٹ میڈیا سے ترقی کرکے براڈ کاسٹ یعنی ریڈیو اور ٹی وی تک پہنچی اور وہاں سے چھلانگ لگا کر ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا تک پہنچ گئی۔ جس کے نتیجے میں نیوز روم کا دائرہ سکڑ کر چھوٹا ہوگیا اب یہاں رپورٹرز ویڈیو ایڈیٹرز کے طور پر بھی کام کرتے ہیں جبکہ پرانے زمانے کے ایچ ڈی کیمروں کی جگہ موبائل جرنلزم کٹ نے لے لی ہے۔ جس میں ایک عدد اسمارٹ فون کا آپ کے پاس ہونا ہی کافی ہے۔
جرنلزم یا صحافت کی دنیا فقط خبریں بنانے اور رپورٹنگ کورسز تک محدود نہیں رہی اب اس میں رپورٹرز کے لیے ڈیٹا کا نچوڑ نکالنے، کوڈنگ، انفوگرامز کی تخلیق، اینی میشن اور گرافک ڈیزائنگ سے آگاہی کا ہونا بھی شامل ہوگیا ہے۔
اس سے پہلے پرنٹ میڈیا میں فقط خبر لکھنے کو کافی سمجھا جاتا تھا یا ٹی وی کی صحافت میں نیوز پیکج بنائے جاتے تھے مگر اب اس کی جگہ ملٹی میڈیا اسٹوری ٹیلنگ کی ترکیب نافذ ہوگئی ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا ماضی میں تصور بھی محال تھا۔
اس سے پہلے ماس کمیونیکیشن یا ابلاغ عامہ کے طالب علموں کو یونیورسٹیز میں سکھایا جاتا تھا کہ حقائق اور درست اعداد و شمار پر مبنی ایک غیر متعصب خبر دنیا کو بدل سکتی ہے مگر اب صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے آج کی اس ڈیجیٹل دنیا میں اگر خبر یا نیوز رپورٹ کو عمدگی سے پیش نہ کیا جائے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور ایسی خبروں کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہں پڑتا۔
آج کی دنیا میں صحافت کا معیار یہ ہے کہ آپ لوگوں کو کس طرح اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، آپ کے پیش کردہ مواد کو کس طرح مونیٹائز کیا گیا ہے اور آپ اپنی خبر کو پیش کرنے کے لیے کس قسم کے ملٹی میڈیا آلات استعمال کررہے ہیں۔
صحافت اور ابلاغِ عامہ کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ایک صحافی کا کردار مسلسل توسیع پذیر ہورہا ہے اسے ہم آسان الفاظ میں کہیں تو ماضی کے مقابلے میں آج کے صحافی کی ذمے داریاں بہت بڑھ چکی ہیں۔ آج کے اس صحافتی منظرنامے کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل میں آپ کو اپنی خبر یا نیوز رپورٹ کو پیش کرنے میں جدت سے کام لینا ہوگا۔
آج جو لوگ میڈیا سائنسز کی ڈگری کے حصول کے لیے پڑھ رہے ہیں یا صحافت میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں انہیں ان تبدیلیوں کو مدِ نظر رکھ کر اپنے آپ کو پوری طرح تیار کرنا ہوگا کیونکہ سوشل میڈیا کے انسانی زندگی میں بے تحاشہ عمل دخل سے اب صحافت اور ماس کمیونیکیشن پہلے جیسی آسان نہیں رہی بلکہ اس میں مقابلے کا رجحان بھی شدید تر ہوتا جارہا ہے ایسے میں اپنی صحافیانہ رپورٹس کو مستند اور قابلِ یقین بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے آپ کو بہت زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔
ماضی میں جب آپ صحافیانہ کورسز کرتے تھے تو آپ کو پڑھایا جاتا تھا کہ اپنی خبر میں انسانی پہلو کو اجاگر کرنا اور صحافیانہ اخلاقیات کو مدِ نظر رکھنا ہی کافی ہے مگر اب خبر کو پیش کرنے کے انداز بدل چکے ہیں۔ آج آپ کو کلاس روم میں پڑھایا جاتا ہے کہ ایک خبر جو آپ عام لوگوں تک پہنچاتے ہیں اسے پیش کرنے کے لیے آپ کے پاس 30 مختلف طریقے ہیں اور مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر پیش کرنے کے لیے آپ کے پاس 30 مختلف ٹیکنالوجیز ہیں۔
آج کے اس ڈیجیلٹل عہد میں جامعات آپ کو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے نت نئے رجحانات کے بارے میں پڑھا رہی ہیں۔ پاکستان میں متعدد نیوز میڈیا آرگنائزیشنز اس وقت ایسے افراد کو رکھنے میں دلچسپپی لے رہی ہیں جو صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر صلاحیتوں کے مالک ہوں کیونکہ اب صحافت فقط آپ کی نیوز رپورٹنگ یا فیچر رائٹنگ پر نہیں کھڑی بلکہ اس میں اور بہت سی جدید چیزیں بھی شامل ہوگئی ہیں جنہیں سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان میں صحات پڑھنے والے طلبا ابھی صحافت کی دنیا میں آنے والے نئے افکار و خیالات سے تھوڑا پیچھے ہیں کیونکہ صحافت پڑھانے والے اساتذہ اور طلبا دونوں کا ہی یہ ماننا ہے کہ صحافت اور میڈیا کی دنیا میں آنے والے یہ نئے رجحانات صحافیانہ اخلاقیات و اقدار کو متاثر کریں گے جبکہ اخبارات اور میڈیا ہائوسز کے مالکان اور منتظمین کو ان اخلاقی تبدیلیوں پرسمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ تاہم اس سارے منظر نامے میں اچھی بات یہ ہے کہ اس وقت جو طلبا صحافت اور میڈیا سائنسز پڑھ رہے ہیں ان کے لیے ان بدلتے ہوئے نت نئے رجحانات کو سمجھنے اور اپنانے کے لیے ایک وسیع میدان موجود ہے اور اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ پروفیشنل لائف میں آنے کے بعد معیاری صحافت اور صحافیانہ اقدار کی کتنی پاسداری کرتے ہیں۔