کیا اساتذہ کی شمولیت کے بغیر تعلیم کے شعبے میں ’انقلاب‘ برپا ہو سکتا ہے؟
کیا اساتذہ کی شمولیت کے بغیر تعلیم کے شعبے میں ’انقلاب‘ برپا ہو سکتا ہے؟
خیبرپختونخوا (کے پی) حکومت کے دعوے صوبے کے تعلیمی شعبے میں "انقلاب" برپا کرنے کی نشاندہی کرتے ہیں، لیکن ان اسکولوں میں کمپیوٹر سائنس کورس کے لیے آپشن موجود ہونے کے باوجود، گریڈ پانچ سے آٹھ تک کے سرکاری اسکولوں میں کمپیوٹر پڑھانے کے لیے اساتذہ ہی دستیاب نہیں ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں 2010میں ایلیمنٹری کلاسز کے لیے کمپیوٹر سائنس کا لازمی کورس متعارف کرایا گیا تھا لیکن مڈل اسکولوں کے لیے کمپیوٹر ٹیچر کی پوسٹ ابھی تک پیدا نہیں کی جا سکی۔
تحقیق کے مطابق، ایبٹ آباد ضلع کے مختلف علاقوں میں سرکاری اسکولوں کے دوروں کی بنیاد پر، ایکسپریس ٹریبیون نے جانا کہ سرکاری اسکولوں میں دوسرے محکموں کے اساتذہ (عربی سے فزیکل ایجوکیشن تک) کی غیر موجودگی میں کمپیوٹر سائنس پڑھا رہے ہیں جبکہ کمپیوٹر کورس کے لیے ایک خصوصی اور اپنے شعبے کے ماہر استاد کی ضرورت ہے۔
ابتدائی کلاسوں کے لیے دس لازمی مضامین پڑھائے جاتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں صرف سات منظور شدہ تدریسی عملے کے عہدے ہیں جن پر اساتذہ کو تعینات کیا جاسکا ہے جبکہ تین مضامین کو پڑھانے کے لیے اساتذہ تعینات ہی نہیں کیے گئے۔
ان پوسٹوں میں ایک سیکنڈری اسکول ٹیچر شامل ہے، جو اسکول کے ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹریس کے ساتھ ساتھ سائنس، آرٹس، ڈرائنگ، عربی، دینیات اور پی ای ٹیچرز کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی (سی آئی، آئی ٹیز) کے اساتذہ کی پوسٹ مڈل اسکولوں کے لیے نہیں ہے، اس لیے اس اہم فریضے کی انجام دہی کے لیے بھرتی کیے گئے لوگ ہائی اسکولوں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، جہاں اسکول کی انتظامیہ انہیں کمپیوٹر سے متعلق کام تفویض کرتی ہے، جس میں آن لائن حاضری برقرار رکھنا، آن لائن مردم شماری فارم کو اپ ڈیٹ کرنا اور آن لائن ایکشن مینیجمنٹ پلانز بنانا شامل ہیں۔
کچھ طلباء نے کہا کہ انہیں کمپیوٹر سائنس کی کلاس "بورنگ" لگتی ہے، جبکہ دوسرے اسٹوڈنٹس کہتے ہیں کہ وہ اس کلاس سے لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ یہ انہیں آرام کرنے یا کھیل سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک گھنٹہ فراہم کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جو اساتذہ ان اسباق کو پڑھانے کے لیے آتے ہیں وہ اکثر اوقات ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے۔ سبق کی منصوبہ بندی کے بغیر، وہ زیادہ تر سیدھا نصابی کُتب سے پڑھتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی اپنی کوئی محنت اور کاوش نظر نہیں آتی۔ کلاس میں مشغول ہونے کے بجائے، طلباء وقت گزارنے کے لیے گیم کھیلنے سمیت دوسرے طریقے تلاش کرتے ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون کے دورے کے دوران، انتظامی عہدے پر فائز ایک خاتون استاد، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صوبے بھر کے سرکاری اسکولوں کو خصوصی اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے، خاص طور پر کمپیوٹر سائنس کے عہدوں کے لیے اساتذہ کی عدم دستیابی ایک اہم مسئلہ ہے۔
انہوں نے اس بارے میں بھی بات کی کہ وہ کس طرح اسکولوں کی حالت پر افسوس کا اظہار کرتی ہیں، جہاں مطلوبہ اساتذہ کی پوسٹیں اکثر طویل عرصے تک خالی رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسٹاف کی کمی کی وجہ سے کوئی مستند اساتذہ دستیاب نہیں ہیں اس لیے تین اساتذہ پورے اسکول کا انتظام سنبھال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس قسم کے حالات میں صرف طالب علموں کا ہی نقصان ہوتا ہے۔
پروفیسر صلاح الدین ایوبی، ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا میں کمپیوٹر سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور انہوں نے صوبے کے لیے کمپیوٹر سائنس کا نصاب تیار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کورسز کو مؤثر طریقے سے پڑھانے کے لیے ایک خصوصی انسٹرکٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے پس منظر سے تعلق رکھنے والے اساتذہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ناواقف ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے یہ مضمون پڑھانا مشکل ہو سکتا ہے۔ پروفیسر ایوبی نے کہا کہ اگر اساتذہ مائیکروسافٹ آفس کے استعمال اور انٹرنیٹ کی بنیادی باتوں سے واقف نہیں ہیں تو ان کے لیے طلباء کو تعلیم دینا تقریباً ناممکن ہے۔
پروفیسر ایوبی نے کہا کہ نصاب 2007 میں بنایا گیا تھا اور اس کا دو بار جائزہ لیا گیا ہے۔ کمپیوٹر سائنس 2006 سے 2010 تک ایک اختیاری مضمون تھا اور اس وقت کا نصاب زیادہ تر کمپیوٹر کی تاریخ کا احاطہ کرتا تھا۔
اب، انہوں نے کہا، یہ ابتدائی کلاسوں کے لیے لازمی مضمون ہے، اس لیے فرسودہ موضوعات کو ہٹا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے پی میں گزشتہ ماہ قائم کیا گیا یکساں قومی نصاب اس سلسلے میں مددگار ثابت ہوگا، اور 2022-2023 تعلیمی سال کے بعد سے لاگو ہوگا۔
پروفیسر ایوبی نے کہا کہ آج کی انتہائی تکنیکی دنیا میں کمپیوٹر دوسرے مضامین کے بارے میں بصیرت فراہم کرتا ہے اور انہیں کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے کیسے پیش کیا جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ گریڈ چھ، سات اور آٹھ میں اس موضوع پر زور دیا جا رہا ہے۔ مزید ابواب کمپیوٹر پر وائرس سے بچنے کے طریقوں اور دیگر مفید معلومات کا احاطہ کرتے ہیں۔ پروفیسر ایوبی ان مضامین کے لیے خصوصی اساتذہ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں خود ایک ماہر تعلیم ہونے کے ناطے کمپیوٹر سائنس پڑھانے میں ایک بڑا فرق محسوس کرتا ہوں کیونکہ اس مضمون کے لیے مختلف پس منظر کے عام استاد سے روایتی روٹ سیکھنے کی بجائے ماہر یا پیشہ ور استاد سے فعال انداز میں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
دوسری جانب، کے پی ایلیمنٹری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اسپیشل سیکریٹری عامر آفاق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے، جس پر موجودہ حکومت کی توجہ مرکوز ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے سرکاری اسکولوں میں کمپیوٹر لیبارٹریز کے قیام کی حکمت عملی تشکیل دی ہے اور آئی ٹی اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے کا بھی منصوبہ بنایا ہے تاکہ خیبر پختونخوا کے تمام اسکولوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مضمون کو اچھے انداز میں پڑھایا جاسکے۔