اِک پھول کا مضموں ہو تو سَو رنگ سے باندھوں۔۔۔ فنونِ لطیفہ کی اہمیت
اِک پھول کا مضموں ہو تو سَو رنگ سے باندھوں۔۔۔ فنونِ لطیفہ کی اہمیت
ہمارے معاشرے میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ کوئی نوجوان ایسا کیریئر اپنانا چاہتا ہے جو میڈیسن یا انجینئرنگ نہیں ہے۔ ایک ایسے سماج میں میں جہاں تعلیم کو فقط اچھی نوکری کے حصول کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے یہ بہت سے لوگوں کے لیے اچنبھے کی بات ہوگی کہ کوئی اسٹوڈنٹس یہ کہے کہ وہ فنونِ لطیفہ کے شعبے میں اپنا مقام و مرتبہ بنانا چاہتا ہے۔ شعور و آگہی کی کمی کے سبب بہت بڑے پیمانے پر لوگ آرٹس یا فنونِ لطیفہ کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کسی کے ہاں جیسے ہی بچہ پیدا ہوتا ہے، والدین فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ بڑے ہونے پر اپنے بچے کو کیا بنانا چاہتے ہیں اور ان کے آپشنز ہمیشہ مذکورہ دونوں شعبوں یعنی طب یا انجینئرنگ میں سے کوئی ایک ہوتے ہیں۔ ان دونوں کیریئرز سے آگے دیکھنا ایسی چیز نہیں ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جائے یا ہمارے معاشرے کے کسی بھی پہلو سے اسے سراہا جائے۔ تاہم ، کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں جو فنون لطیفہ کی پیروی کرنے کا انتخاب کرتے ہیں اور وہ حیرت انگیز طور پر معاشرے کے زیادہ اچھے افراد ثابت ہوئے ہیں۔
فنونِ لطیفہ کا انتخاب:
وہ طلبا جو اپنی تعلیم میں فنون لطیفہ کے ساتھ اپنے کیریئر کا انتخاب کرتے ہیں ، ان کو اپنے انتخاب کو درست ثابت کرنے کے لیے کئی سطحوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ انہیں اپنے والدین یا سرپرستوں کو اپنے من پسند شعبے کے انتخاب کی وضاحت دینی پڑتی ہے اور انہیں قائل کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنے منتخب کردہ شعبےکے مطالعہ کو جاری رکھ سکیں۔ اور جو اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ ایسے ہنر سیکھتے ہیں جو کسی بھی کلاس روم میں نہیں پڑھائے جاتے ہیں۔
اپنے اندر کی آواز کو سُنیں:
آرٹس یا فنونِ لطیفہ کو کسی بھی انسانی سماج میں اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ فنون لطیفہ لوگوں کو اپنے اندر کی آواز کو سُننے اور خود کو پہچاننے کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں۔ آرٹس میں سب سے زیادہ متاثر کن منصوبے اسائنمنٹ سے نکل کر آتے ہیں جہاں طلبا کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے موضوعات خود منتخب کریں اور جس طرح سے چاہیں وہ ان پر کام کریں۔ اس کے نتیجے میں طلبا کی اندرونی خداداد صلاحیتیں کھُل کر سامنے آتی ہیں اور وہ ایسی چیزیں تخلیق کرتے ہیں جو ان کے نزدیک حقیقی زندگی کی ترجمانی کرتی ہیں۔ اسٹوڈنٹس کے ذاتی منصوبے ایک مفید آرٹس کی تعلیم کا بنیادی مرکز ہیں کیونکہ یہ منصوبے لوگوں کو ان کی جبلت اور بنیادی خصلت پر چلنے کی راہ دیتے ہیں اور انھیں ایسے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے اُکساتے ہیں جن کا وہ سامنا کر رہے ہوں، یا ایسی کوئی چیز دریافت کریں جس میں انہیں دلچسپی ہو۔ اس کے نتیجے میں اسٹوڈنٹس غور و فکر کرتے ہیں کہ اصل میں ان کے مسائل کیا ہیں اور انسانی سماج کو کن پریشانیوں کا سامنا ہے اور کیا اس نظامِ حیات کے بارے میں کسی چیز کو حتمی قرار دیا جاسکتا ہے یا وقت کے ساتھ ساتھ معاملات و مسائل بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی موضوعات ادب اور آرٹ کو بنیاد فراہم کرتے ہیں اور ان شعبوں میں پڑھنے والے اپنی علمیت، فہم اور ذہنی استعداد کے مطابق چیزیں تخلیق کرتے ہیں جو دوسروں کے لیے بھی غور و فکر کی راہ ہموار کرتی ہیں۔
یہ ایک ایسا دریچہ ہے جو تخلیقی اور جدید حل کی راہ کھولتا ہے۔ انسانیت اور سماجی علوم کے طلبا کارپوریٹ دفاتر کی طرح لگی بندھی زندگی نہیں گزارتے نہ ہی چیزوں کو لگے بندھے اصولوں کے تحت دیکھتے ہیں۔ کارپوریٹ دفاتر کی طرح ادب اور آرٹس میں زندگی فقط دو جمع دو چار کا مجموعہ نہیں ہوتی۔ نہ ہی بینکوں کی طرح زندگی کو نفع اور نقصان اور سود مندی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ بلکہ وہ اس صورتحال کے بارے میں ایک نیا منظرنامہ سامنے لاتے ہیں ، جس کے بارے میں بہت سے لوگ زندگی کی ان خالی جگہوں سے اکثر واقف نہیں ہوتے۔ بقولِ شاعر۔۔۔
اِسم سے بھریے اِسے یا جسم سے
ہر جگہ خالی جگہ موجود ہے،،
شاعر، ادیب، اور آرٹسٹ لوگ ہمیشہ نئے خیالات پیش کرتے ہیں اور زندگی کو انوکھے زاویوں سے دیکھتے ہیں جس سے انسانی سماج میں جمالیات کا ذوق فروغ پاتا ہے۔ ان لوگوں کے خیالات ان شعبوں میں استعمال ہونے والے نظریات سے زیادہ نمایاں ، بہتر اور زیادہ عمدگی سے شامل ہوتے ہیں۔
اپنی تنقیدی اور فکری مہارت کو فروغ دیں:
فنونِ لطیفہ کا مطالعہ بھی کسی فرد کی اہم فکری اور تنقیدی صلاحیتوں کو تیز کرتا ہے۔ اگر آپ کسی ایسے پروجیکٹ پر کام کرنے کا انتخاب کرتے ہیں جس سے آپ وابستگی رکھتے ہیں تو اس امکانات یہ ہیں کہ آپ اس کے بارے میں زیادہ دیانتدار اور عملی ہوں گے کہ آیا یہ خوشگوار ، مفید اور کارآمد ہو۔ آزمائش اور غلطی کے ذریعے ادب، آرٹ اور انسانی علوم کے طلباء ثابت قدمی اور توجہ کو مرکوز کرنا سیکھتے ہیں۔ ہیومینٹیز اور سوشل سائنس کے طلباء اپنے سائنس کے مشکل ساتھیوں کے مقابلے میں اپنی تعلیم میں بھی اعلیٰ درجے کی کارکردگی دکھاتے ہیں۔
آرٹس اور پاکستان:
بدقسمتی سے پاکستان میں تخلیق کاروں کو ہمیشہ سراہا نہیں جاتا اور اس طرح فنون لطیفہ کا مطالعہ کرنے کو آسان راستہ سمجھنے پر غور کیا جاتا ہے۔ تاہم ، فنون لطیفہ اور سائنس کے مابین نظریاتی طور پر کوئی موازنہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ علم و فکر کے دونوں الگ الگ شعبے ہیں سائنس چیزوں کو ایک الگ انداز میں دیکھنے کا علم ہے جبکہ آرٹس کے طالبِ علم زندگی اور چیزوں کو یکسر الگ انداز میں دیکھتے ہیں۔ اگر آرٹس اور انسانی علوم کو درس گاہوں میں پروان چڑھایا جائے اور ان علوم کے طالب علموں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو اگلی نسل ایک بہتر فکری اور سنجیدہ معاشرے میں پروان چڑھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں معاشرے کو قابل قبول سمجھنے پر انتخاب اور مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے۔