پاکستان میں فنِ تعمیر کی تعلیم اور مستقبل
پاکستان میں فنِ تعمیر کی تعلیم اور مستقبل
پاکستان میں بہت تیزی سے مقبول اور نمایاں ہونے والے پیشوں میں ایک پیشہ فنِ تعمیر کا بھی ہے، اگرچہ پاکستان کے متعدد انسٹیٹیوٹس میں دیگر شعبوں کی طرح فنِ تعمیر کی باضابطہ تعلیم نہیں دی جاتی۔ تاہم انجینئرنگ، میڈیکل اور کمپیوٹر سائنسز کی طرح فنِ تعمیر کا پیشہ بھی پاکستانی اسٹوڈنٹس میں تیزی سے اپنا مقام بنا رہا ہے۔ مہران یونیورسٹی، این ای ڈی یونیورسٹی، نیشنل کالج آف آرٹس اور انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچرز سمیت چند گنے چُنے انسٹیٹیوٹس میں فنِ تعمیر کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے اور تعمیرات کے حوالے سے بنیادی تھیوریز اور پریکٹیکل کا علم تفویض کیا جاتا ہے۔ ان شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے والے اسٹوڈنٹس آگے چل کر اپنی پروفیشنل زندگی میں فنِ تعمیر میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے شہر اور علاقے کی خوبصورتی میں اہم کردار اد اکرتے ہیں۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ تعمیرات کا فن کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے کہ آپ نے کچھ سال لگا کر ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد کسی اور کام میں لگ گئے۔ یہ شعبہ مکمل وابستگی اور انہماک کا تقاضا کرتا ہے اس فن میں آگے بڑھنے کے لیے آپ میں جوش اور جذبے کے ساتھ ساتھ کچھ کر دکھانے کی لگن کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اگر آپ کے اندر قدرتی طور پر اس شعبے میں آگے بڑھنے کی لگن اور صلاحیت ہے تو آپ کے لیے اس پروفیشن میں کر دکھانے کے لیے بہت کچھ ہے۔
آرکیٹیکچر کے شعبے میں کام کرنے کے لیے آپ کے اندر ایک ریاضی دان جیسی ذہانت کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ عمارتوں اور مکانات کی تعمیر میں بھی حساب کتاب کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ اُس وقت تک ایک اچھے معمار نہیں ہوسکتے جب تک آپ کے اندر ایک اچھا ریاضی دان نہ ہو۔
ذیل میں فنِ تعمیر کے حوالے سے کچھ خاص انداز دیئے جارہے ہیں جنہیں جاننا ایک آرکیٹیکٹ کے لیے بے حد ضروری ہے۔
بڑھتے اور پھیلتے ہوئے شہروں کے باعث آج کے اس دور میں شہری منصوبہ سازوں کی مانگ پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے شہروں کی ضروریات بھی بڑھ رہی ہیں، انہی ضروریات کے پیش نظر آج شہری منصوبہ سازی کے شعبے میں ملازمتوں کے امکانات پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ روشن ہیں، سٹی پلاننگ، ٹائون پلاننگ اور ڈسٹرکٹ پلاننگ کے لیے شہروں کو نئے آرکیٹیکچرز کی ضرورت ہے۔
فنِ تعمیر کی بحالی
ہمارا ورثہ اور تاریخ نہ صرف آج کے جدید لوگوں کو ہمارے ماضی سے روشناس کراتے ہیں بلکہ اُس زمانے کے فنِ تعمیر اور تہذیب و تمدن کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں۔ اپنے ماضی کی نشانیوں اور آثارِ قدیمہ کی حفاظت اور بحالی کے لیے ری اسٹوریشن آرکیٹیکٹ کا شعبہ کام کرتا ہے جس میں ملازمتوں کے وسیع مواقع موجود ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث زمین پر قدرتی آفات کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے جیسے زلزلے، سمندری طوفان اور سیلابوں کا آنا آج دنیا بھر کے لیے ایک مسئلہ بنا ہُوا ہے۔ آج کے دور کی ضروریات کے تحت ایکسٹریم آرکیٹیکٹ پر مامور فنِ تعمیر کے ماہرین ایسے رہائشی مکانات اور عمارتیں بنانے میں کوشاں ہیں جن پر قدرتی آفات کا اثر نہ ہو یا کم سے کم اثر ہو۔ پاکستان میں زلزلے کے باعث ہونے والے نقصانات سے سبھی آگاہ ہیں اس لیے ایسے علاقوں میں جو فالٹ لائنز پر موجود ہیں وہاں خاص طور پر ایسی عمارتوں اور مکانات کی تعمیر کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے جنہیں زلزلے یا کسی دوسری قدرتی آفت کے نتیجے میں کم سے کم نقصان پہنچے۔
اگر آپ بھی معمار بننا چاہتے ہیں اور فنِ تعمیر کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں تو آپ کی دلچسپی کے لیے ذیل میں چند ایسے تعلیمی اداروں کی فہرست دی جارہی ہے جہاں آرکیٹیکٹ کے شعبے میں ڈگری پروگرام پڑھائے جاتے ہیں۔ آپ چاہیں تو ان میں سے کسی بھی ادارے سے ڈگری حاصل کرکے تعمیرات کے فن میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرسکتے ہیں۔
انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچرز
جب پاکستان میں تخلیقی شعبوں اور ان مخصوص شعبوں میں تعلیم کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو انڈس ویلی کا نام فوراً ذہن میں آتا ہے۔ یہاں انڈرگریجویٹس کے لیے تخلیقی شعبوں میں متعدد پروگرام پیش کیے جاتے ہیں جن میں سے ایک آرکیٹیکچر بھی ہے۔ یہاں انڈرگریجویٹ پروگرام کا دورانیہ 5 سال پر مشتمل ہوتا ہے جسے عالمی سطح پر تصدیق شدہ فیکلٹی کی نگرانی میں مکمل کرایا جاتا ہے۔ یہاں موجودہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سمیع چوہان ہیں۔
این سی اے کے نام سے مشہور نیشنل کالج آف آرٹس کو کون نہیں جانتا۔؟
پاکستان میں فلم اور آرٹس کی تعلیم دینے والے اس اہم اور قدیم ترین ادارے نے بڑے بڑے فلم میکر، اداکار، گلوکار، موسیقار، کارٹونسٹ، ماہرِ تعمیرات اور مصور پیدا کئے ہیں، یہاں آرٹ، تعمیرات، ڈیزائننگ، سیرامکس، فلم میکنگ، کلچرل ریسرچ اور موسیقی کی تعلیم دی جاتی ہے جہاں سے ان شعبوں کے بہترین افراد کو مستحکم اداروں میں ملازمت اور خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کی جاتی ہے این سی اے میں تعلیم حاصل کرنے والے بہت سے اسٹوڈنٹس آج پاکستان کی نامور شخصیات بن چکے ہیں جن میں، عائشہ عمر، جواد بشیر، فیکا کارٹونسٹ، سرمد سلطان کھوسٹ، نذر عباس کاظمی اور دیگر شامل ہیں۔ این سی اے میں پانچ سالہ آرکیٹیکچر انڈر گریجویٹ پروگرام بھی پڑھایا جاتا ہے، اگر آپ بھی فنِ تعمیرات میں پروفیشنل تعلیم حاصل کرکے اس شعبے میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو آپ کو این سی اے میں ضرور جانا چاہیے۔
حیدر آباد کے قریب جامشورو شہر میں واقع مہران یونیورسٹی میں انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ آرکیٹیکچر کے شعبے میں بھی ڈگری پروگرام پڑھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں جو انسٹیٹیوٹس آرکیٹیکچر کے بارے میں تعلیم دیتے ہیں ان میں مہران یونیورسٹی ایک اہم نام ہے۔ اور یہاں کی فیس بھی مناسب ہے۔