بیرون ملک مقیم میڈیکل طلباء داخلہ کی نئی پالیسی سے ناخوش
بیرون ملک مقیم میڈیکل طلباء داخلہ کی نئی پالیسی سے ناخوش
بیرون ملک مقیم پاکستانی میڈیکل طلباء پاکستان میڈیکل کمیشن کی نئی داخلہ پالیسی سے عدم اطمینان کا شکار ہیں۔
بیرون ملک مقیم طلباء کا کہنا ہے کہ پی ایم سی کی نئی داخلہ پالیسی نے خلیجی ممالک میں رہنے والے طلبا کو مایوسی کا شکار بنایا ہے، جو طبی تعلیم کے حصول کے لیے وطن واپس آئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمیشن نے نئی داخلہ پالیسی میں بیرون ملک مقیم طلباء اور دوہری شہریت رکھنے والوں کے لیے فیس میں اضافہ کیا ہے۔
قطر میں مقیم پاکستانی شہری رانا انور علی نے ایکسپریس ٹریبون کو بتایا کہ بیرون ملک کام کرنے والے اور قیمتی زرمبادلہ بھیجنے والے پاکستانیوں کے بچوں کو نجی میڈیکل کالجوں میں مقامی طلبہ کے مقابلے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خلیجی ممالک میں رہنے والے لوگوں کے پاس ایسی تعلیمی سہولیات اور مواقع نہیں ہیں جتنے دوہری شہریت رکھنے والے یا بین الاقوامی طلباء کو دستیاب ہیں جو دنیا کے دوسرے حصوں میں مقیم ہیں۔
پی ایم سی کے نائب صدر علی رضا نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ میڈیکل طلبہ کے داخلے کا عمل چاہے وہ مقامی ہوں یا بیرون ملک سب کے لیے ایک جیسا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں مختلف نجی میڈیکل کالجوں کے لیے داخلہ فیس اور میرٹ کے معیار مختلف تھے۔
پاکستان میڈیکل کمیشن کی نئی داخلہ پالیسی نے بیرون ملک مقیم پاکستانی میڈیکل طلباء کو مایوسی کا شکار کردیا ہے۔ بیرون ملک مقیم طلبا کے مطابق داخلہ کی اس نئی پالیسی نے انہیں مایوس کیا ہے۔
یہ بیرون ملک مقیم طلباء زیادہ تر خلیجی ممالک میں رہتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے وطن واپس آتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیشن نے نئی پالیسی میں دوہری شہریت رکھنے والے افراد اور دیگر بیرون ملک مقیم طلباء کے لیے امتحانات کی فیس میں اضافہ کیا ہے۔
خلیجی ممالک میں مقیم متعدد پاکستانیوں نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ ان کے مطابق انہیں نجی میڈیکل کالجوں میں مقامی طلبہ کے مقابلے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان میڈیکل کمیشن کے نائب صدر علی رضا نے کہا کہ میڈیکل طلبہ کے داخلے کا عمل مالی طور پر ایک جیسا ہے، چاہے وہ مقامی ہوں یا بیرون ملک مقیم پاکستانی ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجی میڈیکل کالجوں کے لیے میرٹ اور داخلہ فیس ایک دوسرے سے مختلف ہیں کیونکہ وہ اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔
(یہ خبر ایکسپریس ٹریبیون کی 21 جون 2021 کی اشاعت سے اخذ کی گئی ہے)