پشاور کا تاریخی اسلامیہ کالج تباہی کے دہانے پر
پشاور کا تاریخی اسلامیہ کالج تباہی کے دہانے پر
ڈکیتیاں، احتجاج اور دیگر مسائل پشاور میں واقع قدیم ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ قدیم اور باوقار تعلیمی اداروں سے قوم کی ترقی کے لیے مشعل راہ کے طور پر کام کرنے کی توقع رکھتے ہیں، لیکن کے پی کے صوبائی دارالحکومت کے اسلامیہ کالجوں کی المناک حالت ایک اداس تصویر پیش کرتی ہے۔
پشاور میں 20ویں صدی میں قائم ہونے والے اسلامیہ کالج نے تاریخی طور پر برصغیر میں تحریک آزادی کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور پاکستان کے قیام کے ابتدائی برسوں میں مختلف حکمران اشرافیہ کی سیاسی اخلاقیات کو بھی پروان چڑھایا۔ اس قدیم تعلیمی ادارے کی اس لیے بھی بڑے پیمانے پر عزت کی جاتی تھی کہ اس نے بہت سے قابل طلباء پیدا کیے، جنہوں نے فرض شناسی سے قوم کی خدمت کی۔
تاہم، حالیہ دنوں میں، اسلامیہ کالج نے کچھ غلط اور منفی وجوہات کی بناء پر عوام کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ طلباء اور اساتذہ کے باقاعدہ احتجاج، اکثر یہاں ہونے والی ڈکیتیوں اور ایک قتل کی وجہ سے، کالج نے ممکنہ طلباء کے لیے اپنی کشش کھو دی ہے اور، کچھ ہی عرصے میں، وسیع پیمانے پر ہپھیلے سماجی انتشار کی جگہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق ایک سینئر سابق طالب علم اظہار اللہ نے ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "اسلامیہ کالج کی اچھی ساکھ بہت پہلے سے ختم ہو چکی ہے۔ آئے روزیہاں ہونے والے مظاہروں، طلباء کی جھڑپوں اور جرائم کے واقعات کے پیش نظر، اب باقاعدہ کلاسز نہیں ہوتیں۔ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو جلد ہی والدین اپنے بچوں کو یہاں پڑھنے کے لیے نہیں بھیجنا چاہیں گے‘‘
پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمد عزیر کے مطابق، ناقص انتظامی ڈھانچے اور کیمپسز میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی فضا کے پیچھے اہم عوامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "انتظامیہ کلاسز کے انعقاد کی نگرانی نہیں کرتی اور نہ ہی ٹیچنگ فیکلٹی کے 350 ممبران کی دستیابی کی ضمانت دیتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ " نہ ہی یہاں سیکورٹی کے جدید نظام کے لیے مطلوبہ آلات ہیں، تاکہ طلباء کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے اور جرائم کی شرح کو کم کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ٹیچنگ فیکلٹی کی معمولی تنخواہوں کو بھی فیکلٹی کی قیادت میں باقاعدہ احتجاج کے پیچھے ایک بڑا عنصر قرار دیا۔
جہاں کچھ افراد انتظامیہ کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، وہیں کچھ حکومت میں اقربا پروری کو ایک اور بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ اسلامیہ کالج کے استاد اور اسلامیہ کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کے رکن شاہ نواز نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ "حکومت اسلامیہ کالج کے وائس چانسلر کی تقرری اس کی ترجیحات اور ذاتی پسند کی بنیاد پر کرتی ہے اور شاذ و نادر ہی اہلیت کو مدنظر رکھتی ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ مقرر کردہ انتظامیہ کی اکثریت دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتی ہے اور کیمپس میں پیش آنےو الے زمینی حقائق سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کیمپس میں ہونے والے حالیہ قتل کو بھی اس ادارے کی بڑھتی ہوئی بدنامی کی ایک اور وجہ قرار دیا۔
یاد رہے کہ اسلامیہ کالج میں سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں حال ہی میں ایک پروفیسر کا قتل اور جامعہ عثمانیہ میں سیکیورٹی اہلکاروں کا قتل طلبہ تنظیم اور سابق طلباء کے درمیان زبردست اشتعال انگیزی کی وجہ تھے۔
اس معاملے پر ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے، اسلامیہ کالج کی سینئر ایلومنائی ایسوسی ایشن کے صدر خان زمان نے پرانی یادوں کے ساتھ ان اوقات کو یاد کیا جو بہت زیادہ پرامن اور خوشحال تھے اور ساتھ ہی انہوں نے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ آرڈر کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔ خان زمان نے نتیجہ اخذ کیا، "حکومت، انتظامیہ، فیکلٹی اور طلباء کو اجتماعی طور پر ان تاریخی اداروں کے وقار اور عظمت کو بحال کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔