عالمی سطح پر آن لائن امتحانی سافٹ ویئر سے طلباٗ پریشان
عالمی سطح پر آن لائن امتحانی سافٹ ویئر سے طلباٗ پریشان
جب امریکہ کے قانون کے طالب علم اریب خان نے اپنے بار کے پریکٹس امتحانات کے لیے آن لائن پورٹل میں سائن ان کرنے کی کوشش کی تو اسے ایک عجیب پیغام ملا۔
"خراب روشنی کے باعث ہم آپ کے چہرے کی شناخت نہیں کرسکتے۔،،
ان کا کہنا ہے کہ اضافی روشنی سے بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ اس 27 سالہ طالب علم نے اپنے نیو یارک کے اپارٹمنٹ کے روشن ترین کمرے یعنی باتھ روم سے سائن ان کرنے کی کوشش کی مگر اس میں بھی کامیابی نہ ہوئی تو انہیں شک ہوا کہ اس کی وجہ کورونا وائرس کے دوران نیو یارک اسٹیٹ کا قانون کے امتحانات کے بورڈ کے ذریعہ اپنایا ہوا ایک ٹیسٹ پروکٹورنگ پلیٹ فارم ایکسیمپلی فائی ہے جو ان کی گہری رنگت کے باعث ان کی شناخت سے انکار کررہا ہے۔
انہوں نے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا کہ مجھ جیسے لوگوں کو یہ ڈگری حاصل کرنے سے روکنے کے لیے بہت ساری منظم رکاوٹیں ہیں اور یہ اس کی ایک اور مثال ہے۔
کورونا وائرس کے باعث عائد پابندیوں سے طلبا کو دور دراز کے امتحانات دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، دنیا بھر کی یونیورسٹیز ایکسیمپلی فائی جیسے پروکٹورنگ سافٹ ویئرز پر انحصار کر رہی ہیں۔
لیکن بہت سارے طلباء اس ٹیکنالوجی سے مطمئن نہیں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس میں بڑے پیمانے پر ڈیٹا اکٹھا کرنا اور چہرے کی پہچان میں تعصب کا عنصر شامل ہے۔
ٹیکنالوجی اور تعلیم میں مہارت حاصل کرنے والے اور ہیومن رائٹس واچ کی وکالت کرنے والے ایک گروپ کے محقق ہی جنگ ہان نے کہا کہ عالمی وبا کی وجہ سے طلبا پہلے ہی زبردست دباؤ میں ہیں۔ اور اب ہمارے اوپر یہ ناگوار اور غیر منصفانہ نگرانی مسلط کردی گئی ہے جو طلباٗ کی نجی زندگیوں پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔
دوسری جانب ایگزام سافٹ جس نے ایکسیمپلی فائی سافٹ ویئر بنایا ہے، کی ترجمان نیکی سینڈ برگ نے کہا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سافٹ ویئر سے بہت سے اسٹوڈنٹس پر اپنی تعلیم اور کیریئر جاری رکھنے کے قابل ہونے کے حوالے سے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایگزام سافٹ غیر متعصبانہ شناخت اور امتحان کی فراہمی کے عمل کو برقرار رکھتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ رنگ کی بنیاد پر لوگ اس سے متاثر نہیں ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نے خان کے معاملے کو "چند منٹوں میں" حل کردیا اور وہ کامیابی سے اپنا امتحان مکمل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
عالمی توسیع:
یونیسیف کی اگست میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق وبائی بیماری کے آغاز سے ہی 90 فیصد سے زائد ممالک نے دور افتادہ یا فاصلاتی تعلیم کی کچھ شکلیں قائم کی ہیں۔
ریموٹ پروکٹورنگ انڈسٹری بنیادی ویڈیو لنکس سے لے کر بہت ساری خدمات پیش کرتی ہے جو دوسرے انسان کو طلباء کا مشاہدہ کرنے کی اجازت دیتی ہے کیونکہ وہ الگورتھمک ٹولز پر امتحان دیتے ہیں جو دھوکہ دہی کا پتہ لگانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ طلباء کو کسی ٹیسٹ کے دوران ان کی نگرانی کے لیے سافٹ ویئر انسٹال کرنے کے لیے کہا جائے تو ان میں انصاف پسندی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ہیک ایجوکیشن کی ویب سائٹ چلانے والی ایڈٹیک انڈسٹری کے ایک محقق آڈری واٹرز نے کہا کہ اس ٹیکنالوجی کے وعدوں کے درمیان اور اس میں واقعتاً جو کچھ زمین پر وقوع پذیر ہوتا ہے اس میں ایک بہت بڑی خلیج ہے۔
کولاراڈو یونیورسٹی میں اس نوعیت کے سافٹ ویئرز پر تحقیقی کرنے والے محقق شیا سواجر نے بتایا کہ چہرے کی شناخت کا نظام، جو کچھ پروکٹورنگ پلیٹ فارمز صارفین کی شناخت کی تصدیق کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ گہری یا سیاہ رنگت کے حامل افراد کے ساتھ کم درست ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی نوعیت کی مشکوک حرکات کا پتہ لگانے کے لیے تیار کردہ الگورتھم طلباء اور دیگر افراد کو فلیگ کردے گا جو پلیٹ فارم کی توقع کے مطابق عمل نہیں کرتے۔
دوسری جانب طلباء تیسری پارٹی کے سافٹ ویر کو اپنے آلات تک رسائی کی اجازت دینے کے عمل پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں، کیونکہ کچھ سافٹ ویئرز اپنی خدمات کے ساتھ طلباء کی کمپیوٹر فائلوں کو پڑھنے، ان کے کی اسٹروکس پر نظر رکھنے اور ان کے بائیو میٹرکس کا تجزیہ کرنے کی اجازت لیتے ہیں جس کے بغیر طلبا اس سافٹ ویئر پر کام نہیں کرسکتے اور لامحالہ انہیں اس کی اجازت دینی پڑتی ہے۔
پرکٹوریو کے سی ای او مائک اولسن نے ایک فون انٹرویو میں کہا کہ اسکولوں کے لیے کووڈ کے دور میں دھوکہ دہی سے نمٹنے کے لیے پلیٹ فارم سب سے آسان طریقہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کے اپنے گھر پر، خود کے متعین کردہ نظام الاوقات کے مطابق آرام سے امتحان لینا کم ناگوار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس ٹیکنالوجی کے ناقدین اکثر غلط فہمیوں میں رہتے ہیں کہ یہ کیسے کام کرتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ٹولز دھوکہ دہی کرنے والوں کی براہ راست نشاندہی نہیں کرتے بلکہ یونیورسٹیز میں محض مشکوک رویے کو فلیگ کرتے ہیں۔