این ای ڈی کے طلبا نے مچھلی کے فضلے اور اجزا سے بائیو ڈیزل بنا لیا
این ای ڈی کے طلبا نے مچھلی کے فضلے اور اجزا سے بائیو ڈیزل بنا لیا
این ای ڈی یونیورسٹی کے طلبا نے مچھلیوں کے فضلے اور اندرونی اجزا سے ماحول دوست بائیو ڈیزل تیار کرلیا۔ مچھلیوں کے فضلے سے تیار بائیو ڈیزل سے فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ سمندری آلودگی کم کرنے اور ریفائنری میں بننے والے ڈیزل پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔
این ای ڈی یونیورسٹی کے مکینکل انجینئرنگ کے فائنل ایئر کے طلبا کے گروپ نے اپنے سپروائزر اور انوائرنمنٹل انجینئرنگ کے شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر محمود علی کی نگرانی میں 2 ماہ کی تحقیق کو کامیابی سے مکمل کرتے ہوئے مچھلی کے کچرے اور پھینک دیے جانے والے اندرونی اجزا سے بائیو ڈیزل تیار کرلیا ہے۔ ریسرچ کرنے والے طلبا میں محمد ابصار احمد ، ذکی احمد، طلحہ احمد اور حذیفہ افتخار شامل ہیں۔
ریسرچ ٹیم میں شامل طالب علم ابصار احمد نے بتایا کہ اس سے قبل مختلف نباتاتی اجزا سے بائیو ڈیزل تیار کیا جاتا رہا ہے تاہم ان کے گروپ نے مچھلیوں کے فضلے کا انتخاب کیا جو وافر مقدار میں دستیاب تھا اور اس کی دستیابی میں مزید اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ ایک ملین ٹن مچھلی اور سمندری خوراک حاصل کی جاتی ہے جس سے ہر سال ساڑھے 3 لاکھ ٹن فضلہ نکلتا ہے جو زیادہ تر سمندر برد کردیا جاتا ہے جس سے سمندری آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے اور آبی حیات متاثر ہورہی ہے۔
تحقیق کرنے والے طلبا کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں دستیاب ساڑھے تین لاکھ ٹن مچھلی کے فضلے سے بائیو ڈیزل تیار کیا جائے تو ڈیڑھ لاکھ ٹن تیل یا پھر ایک لاکھ ٹن بائیو ڈیزل تیار کیا جاسکتا ہے جس کی ریفائنری میں بننے ڈیزل میں 20فیصد تک آمیزش سے نہ صرف ماحول کے تحفظ میں مدد ملے گی بلکہ ڈیزل اور خام تیل کی درآمد پر اٹھنے والے زرمبادلہ کی بھی بچت کی جاسکے گی۔
مچھلی کے فضلے سے بائیو ڈیزل کی تیاری سے سالانہ 1.73ارب ڈالرکی بچت ہوگی
مچھلیوں کے فضلے سے تیار بائیو ڈیزل کی عام ڈیزل میں20 فیصد تک آمیزش سے ڈیزل کی درآمد پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ میں سالانہ 1.73ارب ڈالر کی بچت کی جاسکتی ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں0.77 ملین ٹن ڈیزل امپورٹ کیا گیا جس پر 17.3ارب ڈالر خرچ کیے گئے، پاکستان میں دستیاب ساڑھے 3 لاکھ ٹن مچھلی کے فضلے کو پراسیس کرکے ایک لاکھ ٹن بائیو ڈیزل تیار کیا جائے تو ڈیزل کی درآمد میں ایک لاکھ ٹن کی کمی ہوگی جس سے 1.73ارب ڈالر کی بچت ہوگی، مچھلی کے فضلے سے بائیو ڈیزل کی تیاری کے دوران بننے والی گلیسرین صنعتی مقاصد کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔
مچھلی کے فضلے اور اجزا سے بائیو ڈیزل تیار کرنے والے پراجیکٹ کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر محمود علی کے مطابق مچھلی کے فضلے سے بائیو ڈیزل کی تیاری تجارتی بنیاد پر ایک نفع بخش منصوبہ ثابت ہوسکتا ہے نجی شعبہ سرمایہ کاری کرے تو این ای ڈی یونیورسٹی پلانٹ کے ڈیزائن سمیت تکنیکی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
رانھوں نے بتایا کہ اس 10 لیٹر کی محدود گنجائش کا حامل پلانٹ بجلی سے چلانے پر کیمیکل سمیت تمام لاگت ملاکر 180سے 190روپے میں ایک لیٹر تیل کو بائیو ڈیزل میں تبدیل کرتا ہے نجی شعبہ زیادہ گنجائش کا پلانٹ نصب کرے تو یہ لاگت کافی حد تک کمی کی جاسکتی ہے اور بائیو ڈیزل کی پیداواری لاگت میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے۔
بائیو ڈیزل کاپراسیسنگ پلانٹ سولرسے چلائیں گے، ڈاکٹر محمود
مچھلیوں کے کچرے اور اندرونی اجزا کے فضلے سے بائیو ڈیزل بنانے کا تجربہ این ای ڈی کے انوائرمنٹل ڈپارٹمنٹ میں تیار کیے جانے والے بیچ بیچ اسکیل بائیو ڈیزل پروڈکشن یونٹ کی مدد سے کیا گیا۔
یہ پلانٹ انوائرمنٹل ڈپارٹمنٹ میں ہی ڈیزائن اور فیبری کیٹ کیا گیا ہے جو 3 گھنٹے میں 10 لیٹر تیل کو پراسیس کرکے اس سے بائیو ڈیزل میں تبدیل کرسکتاہے یہ پلانٹ تیل کو کیمیکل اور حرارت سے پراسس کرکے اس میں سے بائیوڈیزل اور گلیسرین الگ کرتا ہے، یہ مشین 2 ماہ میں ایک لاکھ روپے کی لاگت سے تیار کی گئی ہے۔
ڈاکٹر محمود علی نے بتایا کہ یہ مشین این ای ڈی کے انوائرمنٹل ڈپارٹمنٹ میں ہی تیار کی گئی ہے جو 10لیٹر تیل کو پراسیس کرکے بائیو ڈیزل میں تبدیل کرتی ہے اس عمل کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جارہا ہے جس سے پراسیس کی لاگت میں کمی آئے گی اور بائیو ڈیزل بنانے کے پراسیس کو بھی ماحول دوست بنایا جاسکے گا۔
ڈاکٹر محمود علی نے بتایا کہ مچھلی کے فضلے سے تیار بائیو ڈیزل کی ریفائنری میں تیار ڈیزل کے مقابلے میں لاگت 12سے 13فیصد تک کم ہے تاہم یہ تجربہ 10لیٹر کے بیچ پراسیس پر کیا گیا اگر اسے پائلٹ بنیاد پر 100لیٹر تک کی گنجائش والے شمسی توانائی سے چلنے والے یونٹ پر پراسیس کیا جائے تو عام ڈیزل کے مقابلے میں فش ویسٹ بائیو ڈیزل کی لاگت 20سے 25فیصد تک کم ہوسکتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ مچھلیوں کے فضلے سے تیار بائیو ڈیزل کی کلوریفک ویلیو عام ڈیزل کے برابر ہے اور اس سے خارج ہونے والے کاربن اجزا ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر کلو کاربن سائیکل کے ذریعے دوبارہ ماحول میں شامل ہوجاتے ہیں۔