وفاقی وزیر تعلیم کا طلباٗ کے منفی رد عمل پر حیرت کا اظہار
وفاقی وزیر تعلیم کا طلباٗ کے منفی رد عمل پر حیرت کا اظہار
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے منگل کو کہا کہ تعلیمی اداروں کے دوبارہ کھلنے پر طلباء کا منفی رد عمل ان کے لیے کسی اچنبھے سے کم نہیں ہے۔
طلباء سے خطاب کرتے ہوئے وزیر تعلیم نے 18 جنوری سے تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کے حتمی فیصلے پر ان کے منفی رد عمل پر تاسف کا اظہار کیا۔
شفقت محمود نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ جب میں اسکول، کالج، یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے پر کچھ طلبا کے منفی رد عمل کو دیکھتا ہوں تو مجھے اس پر شدید حیرت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم مستقبل کا ایک گیٹ وے ہے جبکہ تعلیمی سال بھی کسی بھی فرد کی زندگی کا بہترین وقت ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ہر ایک کو اپنے مطالعے اور دوستوں میں شامل ہونے کے موقع کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔
پیر کے روز بین الصوبائی وزرائے تعلیم کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر تعلیم نے تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کے شیڈول کا باضابطہ اعلان کیا تھا۔
وفاقی وزیر نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ صحت کی صورتحال پر غور کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بورڈ اور کیمبرج کے امتحانات، یعنی نویں، دسویں، گیارہویں، بارھویں جماعتوں جبکہ اے اور او لیولز میں شامل کلاسز 18 جنوری کو کھلیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پری اسکول سے 8 تک کی کلاسیں 25 جنوری کو دوبارہ کھلیں گی۔
وفاقی وزیر نے یہ بھی اعلان کیا کہ یکم فروری کو تمام اعلیٰ تعلیمی ادارے، یونیورسٹیاں دوبارہ کھلیں گی تاہم ان کے لیے 11 جنوری سے آن لائن کلاسز شروع ہوجائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح تمام اسکول 11 جنوری سے ایڈمنسٹریٹرز اور اساتذہ کی خاطر طلباء کی آمد کی تیاری کے لیے دوبارہ کھولے جائیں گے۔
رواں سال میں امتحانات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ بورڈ کے تمام امتحانات مئی، جون تک ملتوی کردیئے گئے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس سال بغیر کسی امتحان کے کسی کی ترقی نہیں ہوگی۔
دوسری جانب شفقت محمود کے ٹوئیٹ کے بعد بہت سارے طلباء اور سوشل میڈیا صارفین نے تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے سے متعلق حکومتی فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اسے غیر معقول قرار دیا۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ میرا اندازہ ہے کہ تعلیم کی وزارت نجی اسکولوں کی انجمن کے دباؤ کا شکار ہوگئی ہے۔ بصورت دیگر ابھی اسکول کھولنے کے پیچھے کوئی دلیل نہیں ہے، کم از کم جنوری میں نہیں، کیونکہ متعدی وائرس کی موجودہ دوسری لہر پچھلی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے۔
وفاقی وزیر کی ٹوئیٹ کا جواب دیتے ہوئے ایک اور صارف نے کہا کہ اگر صحت کے حالات پر غور کیا جاتا تو فیصلہ مختلف ہوتا۔ سوشل میڈیا صارف نے پوچھا کہ کووِڈ کے ہزاروں مختلف کیسز پہلے ہی پاکستان میں سامنے آچکے ہیں، کووِڈ کے کیسز میں اضافے کی وجہ سے یہ خطرناک فیصلہ کس طرح لیا جاسکتا ہے؟
ایک ٹویٹر صارف نے کورونا وائرس کے لیے ایس او پیز کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے اسکول کے بچے اسکول وین میں سفر کرتے ہیں جہاں ایس او پیز کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایسی صورت میں بچے آسانی سے وائرس گھر لے جا سکتے ہیں اور اس طرح والدین اور بزرگوں کو بھی بچوں کے ذریعے وائرس ہونے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی سفارش کی کہ اسکول بند کرنے کے دورانیے کو فروری تک بڑھایا جائے۔
بہت سے طلباء نے یہ بھی شکایت کی کہ چونکہ انہوں نے آن لائن کلاسز لی ہیں لہٰذا جسمانی امتحانات کا انعقاد غیر منصفانہ ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پچھلے سال آن لائن کلاسز سوائے ایک مذاق کے اور کچھ نہیں تھیں اور انہوں نے اس سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ انہوں نے کہا کہ پیش آنے والے حالات میں طلبا سے اچھی کارکردگی کی توقع کرنا غیر منصفانہ ہے۔