تجسس: ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے۔۔۔

تجسس: ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے۔۔۔

تجسس: ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے۔۔۔

نوبل انعام یافتہ ماہرِ طبیعات اور عظیم سائنسدان البرٹ آئین اسٹائن نے ایک جگہ کہا تھا کہ ۔۔۔۔ سوال اٹھانا انتہائی ضروری ہے، کیونکہ سوال اٹھانے سے ہی جواب تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ سرخوشی تک پہنچنے کے لیے تجسس اپنی کچھ ذاتی وجوہات رکھتا ہے۔،،

چیزوں کو موثر انداز میں دیکھنے اور قابلیت کے ساتھ سمجھنے کے لیے تجسس ایک انتہائی ضروری عنصر ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بہت سارے طلبا و طالبات کے درمیان کوئی ایک ایسا طالب علم یا طالبہ ہوتی ہے جن کے ذہن تجسس سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ اپنے اساتذہ سے ہمیشہ نت نئے سوالات پوچھتے رہتے ہیں، ایسے بچے بہت ذہین ہوتے ہیں اور ہر وقت کچھ نہ کچھ نیا کرتے رہنا چاہتے ہیں۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ان کے دیگر ہم جماعت انہیں پسند نہیں کرتے یا ان کی سوال اٹھانے کی عادت سے نالاں رہتے ہیں مگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو ایسے طلبہ کو ان کی جرات اور دلیری کے لیے سراہا جانا چاہیے کیونکہ بقول آئن اسٹائن کے سوال اٹھانا انتہائی ضروری ہے، کیونکہ سوال اٹھانے سے ہی جواب تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔،،

 تجسس، لگن یا جستجو سے عاری دماغ کسی کام کا نہیں کیونکہ اگر تجسس نہ ہوتا تو نیوٹن کبھی طبیعات کا قانون نہ بنا پاتا، جس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا اور اسی سے انسانی ترقی کی نت نئی راہیں نکلیں۔

 ذرا تصور کریں اگر نیوٹن اپنے سر پر گرنے والے سیب کے گرنے کی وجہ جاننے کے تجسس میں پڑنے کے بجائے اسے مزے سے کھا لیتا تو طبیعات کا قانون وجود میں نہ آتا اور انسان شاید اتنی ترقی نہ کر پاتا جتنی آج وہ کر رہا ہے۔

اردو کے عظیم شاعر غالب نے بھی ایک جگہ کہا۔۔

سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں

ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے

ظاہر ہے بادلوں سے پانی کا برسنا اور مٹی سے سبزے کا نمودار ہونا اور ہوا کا چلنا اور بادلوں یعنی ابر کا نت نئی شکلیں بدلنا بھی کچھ ایسا عمل ہے جو اپنے آپ میں تجسس رکھتا ہے کہ یہ سب کیسے ہو رہا ہے۔

سابق امریکی خاتونِ اول الےنور روزویلٹ نے کہا تھا کہ ایک بچے کی پیدائش پر اگر اس کی ماں فطرت سے اس کے لیے سب سے بہترین تحفہ طلب کرے تو وہ سوائے تجسس یعنی جاننے کی لگن کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔،،

آپ کا ذہن تجسس کا تصور کرتا ہے۔؟

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ہونے والی ایک دلچسپ تحقیق نے انسانی ذہن میں کارفرما تجسس کے مادے پر غور و فکر کے نئے دریچے وا کئے ہیں۔

تجسس کی کارفرمائی کے بارے میں جاننے کے لیے طلبا کے چند گروپ بنائے گئے اور ان کا ذہن پڑھنے کے لیے مانیٹر اسکرین سے جوڑا گیا اور جب ان سے پوچھا گیا کہ

لفظ ڈائنو سار کے کیا معانی ہیں۔؟

تو ان کے ذہن میں تجسس بیدار ہوگیا اور وہ سوچ میں پڑگئے کہ اس لفظ کے کیا معانی ہوسکتے ہیں۔

اس مطالعے کے ذریعے ماہرین نے مانیٹر اسکرین کےذریعے طلبا کے ذہن میں تجسس بیدار ہوتے دیکھا اور وہ 2 اہم نقاط پر پہنچے۔

 تجسس دماغ کو سیکھنے کی راہ سُجھاتا ہے:

نیچے دیئے گئے خاکے کی مدد سے آپ انسانی دماغ میں تجسس کی بے داری اور کارفرمائی کو باآسانی سمجھ سکتے ہیں۔

یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ ہم نئی نئی چیزوں کو جاننے، خبر رکھنے اور معلومات کے حصول کی طرف طبعی میلان رکھتے ہیں، بہت سی دیکھی ہوئی، سنی ہوئی اور گزاری ہوئی چیزیں عموماً ہمیں یاد رہتی ہیں اور بعض اوقات ہم انہیں بھول جاتے ہیں مگر جب کسی چیز کے بارے میں ہمارے دماغ میں تجسس بیدار ہوتا ہے تو ہمیں وہ غیر متعلقہ اور ان چاہی چیزیں بھی یاد آنے لگتی ہیں جن کے بارے میں ہم اس وقت نہیں سوچ رہے تھے۔ یہ تجسس کی ہی کارفرمائی ہے کہ وہ ہمیں ان دیکھے جہانوں کی طرف کھینچتا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ہونے والی تحقیق نے ہمیں بتایا کہ کسی بھی چیز کے بارے میں پیدا ہونے والا تجسس ہمارے دماغ میں مزید چیزوں کو جاننے اور کھوجنے کی لگن کو پیدا کرتا ہے، یہ ایک گرداب کی طرح ہے جو ان تمام چیزوں کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے جن میں ہماری دلچسپی ہوتی ہے یا ہم کسی نہ کسی تعلق سے ان کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ 

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ہونے والے مطالعے میں شامل پروفیسر میتھیاس کہتے ہیں کہ ایک متجسس اور بے دار ذہن نہ صرف چیزوں کو زیادہ سمجھتا ہے بلکہ اپنے اندر معلومات ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی دوسروں کے مقابلے میں زیادہ رکھتا ہے۔

اگر کوئی طالب علم تاریخ کے مضمون میں دلچسپی نہیں رکھتا تو اس کے ذہن میں تاریخی مضامین کے بارے میں تجسس بے دار کر کے اس خشک مضمون سے دلچسپی کا عنصر پیدا کیا جاسکتا ہے۔

  تجسس مطالعاتی تجربات کو زیادہ قابلِ اطمینان بناتا ہے۔

 تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تجسس آپ کے دماغ میں موجود یاد داشت بحال رکھنے والے گوشے ہیپوکیمپس سیکشن کو ہی نہیں جگاتا بلکہ انسان میں راحت اور انعام کے حصول کے جذبے کو بھی بڑھاتا ہے، جس سے آپ کو خود اپنا آپ پہلے سے زیادہ اچھا اور اہم لگنے لگتا ہے۔ اور کچھ کر دکھانے کی لگن کئی گُنا بڑھ جاتی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جب ہم کوئی ہیجان خیز فلم دیکھتے ہیں یا کوئی مسحور کُن نغمہ سنتے ہیں تو ہمارے اندر احساسات و جذبات کی لہریں دوڑتی ہیں یہ ان کیمیکلز کا نتیجہ ہوتی ہیں جنہیں ڈوپامائن کہا جاتا ہے یہ کیمیکلز دماغ سے خارج ہوتے ہیں اور انسان کے اندر سرخوشی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ تجسس کا مادہ بھی انسان کے دماغ میں ہوتا ہے جو اسے نئی سے نئی چیزوں کو جاننے اور دریافت کرنے پر اکساتا ہے۔

 مریخ پر تحقیق کی غرض سے بھیجے گئے آلے کا نام بھی تجسس رکھا گیا 

 خلائی تحقیق کے لیے سرگرم امریکی ادارے ناسا کی جانب سےمریخ پر بھیجے گئے آلے کو بھی تجسس کا ہی نام دیا گیا ہے۔

یہ آلہ اپنے مشن کے دوران مریخ کےحالات، جغرافیہ، موسم اور ماحول کے بارے میں معلومات جمع کرے گا جس سے انسان کی خلا کے بارے میں جاننے کی لگن کے نئے دروازے کھلیں گے اور معلومات میں بیش قیمت اضافہ ہوگا۔ ظاہر ہے اس کے پیچھے تجسس کا مادہ ہی کارفرما ہے جو انسان کو نت نئی دنیائوں کے بارے میں جاننے پر اکساتا ہے۔  یہ عقل و فہم اور شعور و تجسس ہی ہے جو ہم انسانوں کو اس دنیا میں پائے جانے والے دیگر جانداروں سے ممتاز کرتا ہے۔

 

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو