روالڈ ڈہل: ایک عظیم ادیب
روالڈ ڈہل: ایک عظیم ادیب
نوجوان ذہنوں کو تعلیم وتربیت دینے میں ادب کا کردار انتہائی نمایاں ہے۔ اگرچہ اسے روایتی انداز میں نہیں دیکھا جاتا، لیکن یہ انتہائی بااثر ہے۔ یہ بچوں کی ذہنی نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ نوجوان پڑھنے والے جذباتی طور پر کہانیوں اور ان کے کرداروں سے وابستہ ہو جاتے ہیںاور اس خیالی دنیا کا حصہ بننے کا سوچتے ہیں جو قصوں کہانیوں میں بتائی گئی ہے۔ اس سے ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں اور ذہنی نشوونما میں مثبت اضافہ ہوتا ہے اور ان کی تصورات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی فروغ پاتی ہے۔
ادب کی دنیا قارئین کو اپنی پسندیدہ ادبی شخصیات کو پڑھنے اور ان کا تصور کرنے کے ذریعے انسانی ہمدردی کا ایک علامتی احساس فراہم کرتیہے، نصیر ترابی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ادب انسان کے دل میں دوسرے انسان کے لیے احترام اور برداشت پیدا کرتا ہے۔۔
بہت سے مصنفین نے بچوں کی ذہنی نشوونما اور تعلیم وتربیت پر بے حد اثرڈالا ہے۔ ان میں سے کچھ رائٹرز تو دنیا بھر میں اتنے پسند کیے جاتے ہیں کہ ان کو کسی تعارف کی ضرورت نہیں، مثال کے طور پرجے کے رولنگ یاروالڈ ڈہل۔
بہت سے بچوں کے لیے روالڈ ڈہل وہ پہلا مصنف ہے جس سے وہ متعارف ہوئے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پہلا مصنف ہے جس نے اپنے نوعمر قارئین کو زبان کی جادوئی طاقت دکھائی اور ایسی اثرانگیز تخیلاتی دنیا تخلیق کی جس میں ایک نوجوان قاری خود کو ایک کردار کی جگہ رکھ کر اپنی ہی خیالی دنیا تخلیق کرسکتا ہےیا اس دنیا کا حصہ بن سکتا ہے جو کہانیوں میں بیان کی گئی ہے۔ روالڈ ڈہل اپنی بچوں کے لیے لکھی گئی کتابوں کے لیے مشہور ہیں اور ایک بار انہوں نے کہا بھی کہ میں بڑی عمر کے افراد کے لیے لکھی گئی اپنی مختصر کہانیوں کے مقابلے میں بچوں کے لیے لکھی گئی کتابوں سے زیادہ خوش اور مطمئن ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی کتابیں لکھنا مشکل ہے، کسی بچے کی دلچسپی کا خیال رکھنا اور کہانی کاری میں بچوں کی دلچسپی کے لیے ایسے عناصر شامل کرنا اگرچہ مشکل ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں کسی بالغ شخص کی طرح توجہاور ارتکاز نہیں ہوتا۔ ایک بچہ جانتا ہے کہ ٹیلی ویژن اگلے کمرے میں ہے۔ بچے کو پکڑنا مشکل ہے، لیکن ایسا کرنے کی کوشش کرنا ایک خوبصورت چیز ہے۔
روالڈ ڈہل کی کتابیں، جو عام طور پر بچوں کے ذہن کی سطح کو مدِ نظر رکھ کر ایک خاص نقطہ نظر سے لکھی جاتی ہیں، سیکھنے کے لیے ایک اہم سبق کو نمایاں کر سکتی ہیں۔ ایسا سبق جس میں بچوں کو یہ بتایا جائے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہو سکتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں برے واقعات نہیں ہوتے یا برے لوگ نہیں پائے جاتے۔
ڈہل انہیں ایک چھوٹا اورغیرمعمولی کردار دیتا ہے جو غلط چیزوں پر قابو پاتا ہے ناپسندیدہ صورٹحال سے نکل جاتا ہے اور مشکلات کے باوجود جیت جاتا ہے، چاہے کوئی بچہ بدسلوکی کرنے والے خاندان اور ہیڈ ٹیچر سے بچ جائے یا لومڑی اور اس کا خاندان ان کا شکار کرنے والے کسانوں کو پیچھے چھوڑ دے۔
ان کی کتابیں پڑھنے والے بچوں کے لیے ایک طرح کی ایک انوکھی دنیا ہے جو تفریح کے دوران قدرتی اور تلخ حقائق سے بھری دنیا کے کچھ عناصر کو اپنے ساتھ شامل کر لیتی ہے۔
روالڈ ڈہل بچوں کے پسندیدہ ادیب ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں بچوں کی دلچسپی کا کیا سامان ہوسکتا ہے، جیسے تفریحی الفاظ کا استعمال نوجوان قارئین کو کس طرح اپنی طرف متوجہ کرے گا۔ جیسے اوزی یا اِگل جیسے عام سے الفاظ جن کا استعمال ایک خاص سیاق و سباق میں ہوتا ہے، یہی الفاظ ڈہل کی کہانیوں میں نئی معانی پیدا کرتے ہیں اور بچوں کی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔
ڈہل کے پاس تخیلاتی الفاظ تخلیق کرنے کا یہ ایک انوکھا ہنر ہے جو حقیقی لگتا ہے جیسے یہ واقعات آپ کی آنکھوں کے سامنے سڑک پر واقع ہو رہے ہوں یا جیسے واقعی ایک شاندار چاکلیٹ فیکٹری ہو جس کو اومپا لومپاس کہتے ہیں۔
اپنے اسی انوکھے اور دلچسپ انداز کے باعث انہیں عظیم کہانی کاروں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ ان کی بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں جیسے بی ایف جی، وچز یا چارلی اینڈ دی چاکلیٹ فیکٹری وغیرہ آج بھی بچوں کی پسندیدہ کہانیاں سمجھی جاتی ہیں۔
ڈہل کی یہ چھوٹی چھوٹی سادہ مگر دلچسپ کہانیاں ایک بچے کی تعلیمی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہیں انہی کہانیوں کو پڑھتے پڑھتے بچے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ سنجیدہ ادب کی طرف توجہ کرتے ہیں اور زندگی کے حقائق کو ادیبوں کی نظر اور نظریات کی روشنی میں دیکھنے کے قابل جاتے ہیں۔۔